Get Alerts

ایل این جی کیس: مفتاح کی ضمانت مگر شاہد خاقان عباسی اندر کیوں؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایل این جی کیس میں سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسماعیل کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے مفتاح اسماعیل کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔

یاد رہے کہ ن لیگی رہنما مفتاح اسماعیل ایل این جی کیس میں نیب کی زیر حراست تھے۔

اہم سوال یہ ہے کہ مفتاح کی ضمانت مگر شاہد خاقان عباسی اندر کیوں ہیں؟ یاد رہے کہ اسی کیس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ملزم ہیں، جنہیں رواں سال جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔  تاہم عباسی ابھی تک نیب کی حراست میں ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک ضمانت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

عباسی کی قانونی ٹیم کے رکن اور وکیل صہیب احمد کے مطابق سابق وزیر اعظم تو اس کیس کے خاتمے کی بات کرتے ہیں کیونکہ یہ ’ایک جھوٹا اور بے بنیاد ریفرنس ہے‘۔  تاہم صہیب احمد کا خیال ہے کہ اب جب ایل این جی کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر ہو چکا ہے اور باقی دونوں ملزمان کی ضمانت بھی ہوگئی ہے تو امکان ہے کہ وہ ( شاہد خاقان عباسی) خود بھی ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

واضح رہے کہ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار انصار عباسی نے چند روز قبل روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں نیب کی حراست میں موجود سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے جو شاہد خاقان عباسی کے کیس میں دیکھنے میں آیا وہ یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کیس کے حوالے سے تمام متعلقہ حکام اور دیگر متعلقہ افراد بشمول مفتاح اسماعیل اور شیخ عمران الحق (جو نیب کی حراست میں ہیں) کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے کی ذمہ داری ان پر (شاہد عباسی) پر ڈال دیں تاکہ انہیں نیب کے عتاب سے بچایا جا سکے۔

ان کی پارٹی اور خاندان کے ذرائع نے تصدیق کی  کہ شاہد خاقان عباسی پورے ایل این جی پروجیکٹ کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق’’انہیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ نیب بالآخر مفتاح اسماعیل، شیخ عمران الحق اور کئی دیگر کو گرفتار کرکے ان پر دبائو ڈالے گا۔



گرفتاری سے کئی ہفتے قبل انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ وہ اُن لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں بتائے کہ وہ نیب کی جانب سے جیل میں ڈالے جانے سے بچنے کیلئے جو بیان اپنی مرضی سے دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ نیب کی جیل یا حراست سے بچنے کیلئے سلطانی گواہ بن بھی گئے تو وہ ان کیخلاف دل میں کوئی بات نہیں رکھیں گے۔‘‘

انصار عباسی نے مزید لکھا کہ "کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد جیسا کہ آئی ایس جی ایس کے مینیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت اور پیٹرولیم کے سابق سیکریٹری عابد سعید نے یہی کیا اور وزیر کیخلاف بیان دیا (اور ساری ذمہ داری ان پر ڈال دی) اور خود کو کسی بھی طرح کے مبینہ غلط کام سے بری الذمہ قرار دیا"۔

رپورٹ  کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے نیب کو یہ تک کہہ دیا ہے کہ وہ خود اس معاملے کی پوری ذمہ داری لینے کو تیار ہیں اور مفتاح اور عمران الحق کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں اور دونوں کو فوراً رہا کر دیا جائے۔

سابق وزیر اعظم کے مطابق سوالات کا جواب دیتے ہوئے  ایک سال سے زائد کا وقت گزر چکا ہے جبکہ یہ سوالات ’’انتہائی مضحکہ‘‘ خیز اور ’’غیر منطقی تکرار‘‘ سے بھرے ہیں۔

انصار عباسی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا پہلے تو نیب کی توجہ کا مرکز قطر سے حاصل کی جانے والی ایل این جی تھی اور بیانات جاری کرتے ہوئے اسے ’’کرپٹ‘‘ قرار دیا گیا، شاہد خاقان عباسی کا جواب بڑا ہی سادہ ہے: مذاکرات کے ذریعے حاصل کی گئی یہ اُس وقت دنیا کی سب سے بہترین ایل این جی ڈیل تھی۔

حتیٰ کہ قطر کی پیداوار سے دوگنا زیادہ سالانہ ایل این جی خریدنے والے ملک جاپان نے بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ پاکستان نے کم ترین قیمتوں اور بہترین شرائط پر یہ معاہدہ کیا تھا۔

ذرائع کے حوالے سے سامنے آنےوالی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے جواب میں تفتیشی حکام کو بتایا کہ سابق وزیر ایل این جی اور گیس ایسی چیزیں ہیں جن کی قیمتوں پر مارکیٹ اثر انداز ہوتی ہے، لیکن قطر کے ساتھ کیے گئے طویل المدتی ایل این جی معاہدے کی وجہ سے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے مقابلے میں اس گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے پر پاکستان کو سالانہ 150؍ سے 250؍ ارب روپے کی بچت ہوگی، دیگر فوائد الگ ہیں۔



انصار عباسی کے مطابق قطر کی وزارت توانائی اور قطر پٹرولیم کے چیف ایگزیکٹو افسر سعد الکعبی نے حال ہی میں صرف چار گھنٹے کیلئے پاکستان کا دورہ کیا اور وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ ’’ایل این جی چاہئے تو ٹھیک بصورت دیگر ٹھیکہ منسوخ کردیں، ہمارا نام اپنی سیاسی کیچڑ میں نہ گھسیٹیں، پھر دیکھتا ہوں کہ آپ کو کون ایل این جی فروخت کرتا ہے۔‘‘

انصار عباسی نے لکھا کہ شاہد خاقان عباسی نے نیب سے سوال کیا ہے کہ اگر وہ ان پر کرپشن کا الزام عائد کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے پیسے لیے ہوں گے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کوئی شخص نیلامی کے عمل میں کیسے پیسے لے سکتا ہے؟ کس نے پیسے ادا کیے ہوں گے؟ اینگرو نے؟ پاکستان کی سب سے بڑی کارپوریشن نے؟ تو کیا یہ کہہ کر آپ اینگرو پر بھی الزام عائد کر رہے ہیں؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ حال ہی میں نیب کے تفتیش کاروں نے شاہد خاقان عباسی کو بتایا ہے کہ وہ ان پر مالیاتی کرپشن کا الزام عائد نہیں کر رہے بلکہ یہ ’’اختیارات کے ناجائز استعمال‘‘ کا کیس ہے۔ اس کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے نیب والوں کو بتایا کہ ’’ٹھیک ہے تو یہ بتائیں کہ ایک وزیر کے پاس نیلامی کے عمل پر اثر انداز ہونے کیلئے کیا اختیارات ہوتے ہیں۔ اور اگر مجھے ذاتی حیثیت میں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا تو میں کیوں نیلامی کے عمل میں مداخلت کروں گا؟ اینگرو میرے کسی رشتہ دار کی کمپنی نہیں۔

تفتیش کاروں کے پاس ان سوالوں کا بھی کوئی جواب نہیں لیکن پھر یہ لوگ ایک نیا آئیڈیا لے کر سامنے آئے، ’’یہ ٹرمینل ہمیں خود تعمیر کرنا چاہئے تھا۔‘‘



اس پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’’ٹھیک ہے آپ ایل این جی ٹرمینل تعمیر کرنے کیلئے ڈرائنگز بنا کر دکھا دیں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا۔‘‘ پاکستان ہر سال 10؍ ارب ڈالرز مالیت کا تیل درآمد کرتا ہے۔

ذرائع نے شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بتایا کہ بتانے کیلئے بہت سی باتیں ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’’یہ نہ ختم ہونے والا مذاق ہے۔‘‘