سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 1: ایم کیو ایم کو عروج بخشنے میں سندھیوں اور پختونوں کا کردار

سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 1: ایم کیو ایم کو عروج بخشنے میں سندھیوں اور پختونوں کا کردار
پاکستان کی موجودہ سیاست کے کردار گزشتہ کئی دہائیوں سے اس میدان میں سرگرم ہیں۔ سنہ 88 کے انتخابات سے جمہوری حکومتوں کا ایک نیا دور شروع ہوا جو گیارہ سال تک جاری رہا۔ اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت برطرف کی تو یہ جمہوری دہائی اختتام کو پہنچی۔ اس دہائی میں سیاسی جماعتوں، عسکری اداروں اور مذہبی عناصر کے مابین تعاون اور تصادم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس کی بازگشت اب تک ہماری سیاست میں موجود ہے۔ بہت سے ایسے چہرے جو آج ہماری سیاست کا حصہ ہیں، نوے کی دہائی میں عروج پر آئے تھے۔ تحاریر کا یہ سلسلہ 90 کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ثانی کی کاوش ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ایک سیاسی جماعت کی تخلیق اور ارتقا پر نظر اور اس کے بعد تاریخ کی کہانی موجود ہے۔

سندھی زبان میں امتحان کے فیصلے پر شہر بھر میں فسادات

1970 کےانتخابات تک کراچی میں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی  حمایت کرنے والی مہاجر آبادی کو 1972 میں سندھیوں کے لئے شروع کیے گئے کوٹہ نظام نے شش و پنج میں مبتلا کیا۔ اسی برس سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان کا  درجہ بھی دیا گیا۔

جنوری 1971 میں حیدرآباد بورڈ نے میٹرک کے امتحانات میں تمام طلبہ کو سندھی میں امتحان دینے کا فیصلہ سنایا تو نواب مظفر خان کی قیادت میں قائم کردہ مہاجر پشتون پنجابی متحدہ محاذ نے احتجاج کیا جس کے رد عمل میں سندھی طلبہ نے بھی یہی راستہ اپنایا تو حالات کی خرابی کے باعث حیدرآباد اور کراچی میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔

سنہ 1972 میں لسانی فسادات کے دوران مہاجر اکثریتی علاقوں لیاقت آباد، پاپوش نگر اور گلبہار میں گاڑیاں اور دکانیں نظرآتش کی گئیں اور کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت کے طلبہ نے شعبہ سندھی کو آگ لگا دی۔ ان فسادات کے دوران بائیس افراد جاں بحق ہوئے۔

'لالو کھیت پر حملہ ہو گیا ہے، ایوب خان کے آدمی لوگوں سے مس فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کا بدلہ لے رہے ہیں'

اس سے قبل یو-پی اور سی پی کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے  مہاجرین نے 1951 اور 1958 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے  نمائندوں کی حمایت کی تھی۔ سنہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں کراچی کی مہاجر  آبادی نے فاطمہ جناح کی پرزور حمایت کی۔ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے انتخاب  میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک جلوس منعقد کیا اور مخالفین پر فائرنگ کی۔



آصف فرخی نے اپنے مضمون "اس شہر میں رہنا" میں لکھا: اس دن سارے وقت گھر میں عجیب طرح کی باتیں ہوئی تھیں جن کی تفصیل مجھ سے چھپائی گئی؛ لیکن پھر بھی اتنا سمجھ میں آ گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے اور اس گڑبڑ کے بیچ لالوکھیت ہے۔ جب ایسا ہوتا تھا تو میں سمجھ جاتا تھا کہ مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوئی ہے؛ لیکن اس دن شام ہو گئی اور سب چھت پر جا کر کچھ دیکھنے لگے۔ جس طرف مجھے بتایا گیا تھا کہ لالو کھیت ہے، وہاں جا بجا آگ لگی ہوئی تھی۔ آسمان دھواں دھواں تھا۔ ادھر کی خاموشی میں دور کا شور گھلا ہوا تھا۔

'لالو کھیت پر حملہ ہو گیا ہے'، چھوٹی خالہ نے مجھے چپکے سے بتایا۔ 'ایوب خان کے آدمی، یہاں سے لوگوں سے مس فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کا بدلہ لے رہے ہیں'۔ مجھ سے کہا گیا، 'دعا مانگو! دعا مانگو کہ وہ لوگ لوٹ مار کرتے ہوئے، آگ لگاتے ہوئے لالو کھیت سے نکل کر یہاں نہ آ جائیں۔'

الطاف حسین سیاسی پردۂ سکرین پر نمودار ہوتے ہیں

70 کی دہائی کے اختتام تک کوئی نمایاں سیاسی جماعت مہاجروں کے حقوق کی علم بردار اور محافظ نہیں تھی۔ اس صورت حال میں کراچی یونیورسٹی میں قائم کی جانے والی کل پاکستان مہاجر طلبہ جماعت (APMSO) نے اس خلا کو کسی حد تک پورا کیا۔ الطاف حسین اور طارق عظیم کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس جماعت کی تخلیق میں 'حساس  اداروں' کے کردار پر بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔



77 کے انتخابات میں الطاف حسین نے پی این اے کے امیدووار کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ جون سنہ 1978 میں اس جماعت نے 'میری آواز سنو' نامی پمفلٹ شائع کیا جس میں مہاجر قومیت کا اظہار موجود تھا۔

افغان جنگ، اور کراچی میں پشتونوں کی آمد

افغان جنگ کے باعث بہت سے پشتون مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا اور ان میں سے  بہت سوں نے معمولی نوکریاں اختیار کیں۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 1980 میں  کراچی کی آبادی اسّی لاکھ تھی اور شہر میں پشتون افراد کی تعداد پندرہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ چند پشتون مہاجرین نے ٹرانسپورٹ بسوں کا کاروبار شروع کیا اور جلد ہی کراچی کی سڑکوں پر ان کا راج قائم ہو گیا۔

وہ واقعہ جس نے ایم کیو ایم کو کراچی کی سیاست کا سب سے بڑا کھلاڑی بنا دیا



15 اپریل 1985 کو کراچی میں ہونے والے ایک واقعے نے سندھ میں مقیم مہاجر  آبادی کی تاریخ بدل دی۔ ناظم آباد میں سرسید گرلز کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی کو ایک  منی بس ڈرائیور نے بس تلے کچل دیا۔ اس بس کو بعد میں مظاہرین نے آگ لگا دی، البتہ ڈرائیور موقعے سے فرار ہو گیا۔ ابتدائی افواہوں کے مطابق ڈرائیور پشتون تھا، البتہ اس معاملے میں مختلف آراء موجود ہیں اور قیاس کے مطابق وہ ڈرائیور پنجابی یا کشمیری تھا۔



اس سے قبل کراچی میں پشتون ڈرائیوروں کے ہاتھوں ایسے کئی حادثے رونما ہو چکے تھے۔ کالج کی طالبات نے احتجاج کی کوشش کی تو پرنسپل صاحبہ نے کالج کا گیٹ زبردستی بند کروا دیا۔ طالبات نے اس عمل کے باوجود کالج سے نکل کر احتجاج شروع کیا اور ان کے ساتھ قریبی کالجوں کی طالبات بھی شامل ہو گئیں۔ بشریٰ زیدی کی جوان موت کے باعث کراچی شہر میں فسادات شروع ہوئے اور مہاجر وں کی جماعت ’مہاجر قومی  موومنٹ‘ (جو مارچ 1984 سے معرض وجود میں آ چکی تھی) نے اپنی سیاسی  اور عملی طاقت کا پہلا مظاہرہ کیا۔ فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچاس سے زیادہ افراد مارے گئے۔



'شاہراہوں پر رواں انسانوں کا سمندر، گلی کوچوں سے ابلتا ہوا۔ یہ کس قسم کی تحریک تھی؟'

فہمیدہ ریاض نے اپنے ناولٹ کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے بارے میں لکھا: "نچلے اور درمیانے طبقوں کے اس جم غفیر نے آخرکار اپنی نمائندہ، نسلی نام رکھنے والی، سیاسی تنظیم بنا لی۔ اور ایسے کہ کسی نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ شاہراہوں پر رواں انسانوں کا سمندر، گلی کوچوں سے ابلتا ہوا۔ یہ کس قسم کی تحریک تھی؟ یہ اپنے طبقے اور ان حالات کی آئینہ دار ہی ہو سکتی تھی جن میں یہ وجود میں آئی۔ اس کی ناخوشگوار خصوصیات کرسئ اقتدار کی نگرانی میں پیدا ہوئیں تاکہ بوقت ضرورت کام میں لائی جا سکیں۔"



اگست 1986 میں مہاجر قومی موومنٹ نے مزار قائد کے قریب اپنا پہلا عوامی جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے مہاجروں کو ایک قومیت قرار دیا۔ جلسے کے دوران ہلکی پھوار برسنے لگی جسے حاضرین نے قدرت کی طرف سے ایک اشارہ قرار دیا۔



دسمبر 1986 میں مقامی حکومت نے پشتون علاقوں میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اس کے رد عمل میں کچھ پشتونوں نے مہاجروں کے علاقے قصبہ اور علی گڑھ کالونی پر دھاوا بول دیا۔



اس دن تو جیسے موج خوں سر سے گزر گئی

آصف فرخی نے لکھا: "آج اورنگی کی ٹیم فیلڈ سائٹ نہیں جائے گی"۔ گڑبڑ کی کوئی نہ کوئی اطلاع آنے لگی تھی اور سٹاف کو بھیجنے کا فیصلہ میرے سر آن پڑتا۔ یہ وہاں کے معمول کا حصہ بن گیا تھا۔

لیکن اس دن تو جیسے موج خوں سر سے گزر گئی۔ جب ہمیں خبر ملی کہ ہمارے سنٹر سے تھوڑا دور علی گڑھ کالونی میں نامعلوم افراد نے راتوں رات گھس کر گھر لوٹ لئے ہیں، آبادی پر حملہ کیا ہے، کتنوں کو مار ڈالا ہے۔ یہ محض خبر تھی، تفصیل معلوم نہیں کہ اورنگی سارے شہر سے کٹا ہوا تھا۔

پھر ہماری ایک ورکر نے جانے کتنے جتن سے ٹیلی فون کروایا کہ ہم تو جیسے کنویں میں بند بیٹھے ہیں، سبزی ترکاری آئی ہے نہ بجلی پانی ہے، بچے دودھ کے بغیر تڑپ رہے ہیں۔ حکام بالا سے خصوصی اجازت لی گئ اور سائرن بجاتی ایمبولنس میں دوائیں اور کھانے پینے کی چیزیں لے کر ہم روانہ ہو گئے۔ بنارس چوک سے ذرا آگے فوجی راستہ روکے کھڑے تھے۔ ان کو اپنی شناخت اور اپنی آمد کا مقصد سمجھانے میں بہت وقت لگا اور اتنی دیر میں لوگ جمع ہو  گئے۔ "ہمیں موقع مل جائے تو ہم ان کو مزہ چکھا دیں"، ان کے افسر اعلیٰ نے کہا، اور اشارہ ان لوگوں کی طرف کیا جو رو رو کر اپنا حال بتا رہے تھے۔

سنہ 1987 میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مہاجر جماعت نے کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر فاروق ستار مئیر منتخب ہوئے۔