چودھری رحمت علی نے پاکستان کا مطالبہ 1933 میں اپنے ایک پمفلٹ میں کیا جس کا عنوان تھا: Now or Never: Are We to Live or Perish Forever? لیکن اس مطالبے کو تیسری گول میز کانفرنس کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم کی بچگانہ سوچ سے زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ اس کانفرنس میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبالؒ، سر ظفر اللہ خان اور سر سلطان آغا خان جیسے سیاسی اکابرین شرکت کر رہے تھے۔
1935 میں برطانوی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 میں ترمیم کرتے ہوئے (جس میں اس سے قبل 1919 میں بھی ترمیم کی جا چکی تھی) اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو محمد علی جناحؒ مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لئے ہندوستان واپس آئے۔ اس ترمیم کے تحت برما کو برٹش انڈیا سے الگ کیا گیا، انڈین ریزرو بینک، انڈین فیڈرل کورٹ، مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن اور مقامی حکومتیں قائم کی گئیں۔ آسام، بمبئی، بنگال، بہار، مدراس، پنجاب، سندھ (بمبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد) اور یو پی میں صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں۔
یہ صوبائی اسمبلیاں جن نوآبادیاتی قوانین کے تحت وجود میں آئیں، یہ آج بھی موجود ہیں۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ (NWFP) 1901 میں ایک علیحدہ صوبہ قرار دیا جا چکا تھا۔ بلوچستان 1876 سے 1947 تک ایک نوآبادیاتی ایجنسی رہا، جب کہ قلات کی ریاست اور اس کی ذیلی ریاستیں مکران، لسبیلہ، خاران، ساراوان اور کچی برطانوی حکومت کی عملداری میں تھیں۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد جناح نے مسلمانوں کو ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جناح اور ان کی آل انڈیا مسلم لیگ 1937 کے انتخابات میں تمام صوبوں سے انتخابات ہار گئی کیونکہ مسلمان ہندوستانی مرکز کے حق میں نہیں تھے اور ایک علیحدہ وطن چاہتے تھے۔
1937 اور 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ کو شکست دی۔ دونوں انتخابات میں NWFP نے انڈین نیشنل کانگریس کے حق میں ووٹ دیے۔ بنگال میں 1937 کے انتخابات کرشک پرجا پارٹی نے جیتے جو 1942 میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی اور 1946 میں واپس اقتدار میں آئی۔ سندھ نے برطانیہ نواز یونائیٹڈ پارٹی کو ووٹ دیا جو مسلم لیگ میں شامل ہو گئی اور 1946 میں ایک بار پھر برسرِ اقتدار آئی۔
1937 تک پاکستان ایک طالبِ علم کا خواب ہی تھا۔ تاہم، تحریکِ پاکستان مسلم اقلیتی صوبوں میں مقبولیت پکڑ رہی تھی۔ جہاں تک مسلم اکثریتی صوبوں کی بات ہے تو یہ سب کی سب اپنی آزاد خود مختار ریاستیں چاہتی تھیں۔ جموں و کشمیر، دیر، سوات، چترال، ہنزہ، نگر، بہاولپور، قلات اور اس کی پانچ ذیلی ریاستیں شاہی ریاستیں تھیں اور یہ اپنے جاگیردار حکمرانوں کے قابو میں تھیں اور مقامی آبادی کے حقوق ان ریاستوں میں راجاؤں، امیروں کے رحم و کرم پر تھے۔
جموں و کشمیر، حیدر آباد دکن اور قلات کی ریاستیں آزادی چاہتی تھیں۔ اس وقت تک بلوچستان ایک برطانوی نوآبادیاتی ایجنسی تھا۔
1937 میں ہندو اکثریتی صوبوں کے منتشر مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیے لیکن یہ غیر منظم تھے اور ان کے پاس ایک مشترکہ پلیٹ فارم نہ تھا۔
1937 میں مسلم لیگ اس لئے مسلمانوں کی جماعت بن کر نہ ابھر سکی کہ یہ ان کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہی تھی۔ مسلم لیگ نے فوراً اپنا قبلہ درست کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 1939 میں جناح کا یومِ نجات منانے کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
تحریکِ پاکستان کے حامی مسلمان ایک نوجوان رحمت علی کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ وہ برطانویوں کے خلاف تحریک میں ان کی قیادت کر سکے۔ جناح اور مسلم لیگ کے جاگیردار رہنماؤں کو اس کا زیادہ اہل سمجھا گیا کیونکہ وہ نوآبادیاتی حکمرانوں تک ان کی بات پہنچا سکتے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ رحمت علی جیسے دیدہ ور کبھی ان کے غیر مقامی حکمرانوں کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔
لہٰذا 1933 میں رحمت علی کی شروع کی گئی تحریکِ پاکستان کی قیادت 22 دسمبر 1939 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ تاریخ کا جبر دیکھیے کہ وہی گول میز کانفرنس کے رہنما جو چند برس پہلے پاکستان کو ایک دیوانے کا خواب قرار دے آئے تھے اب اس کی وکالت کر رہے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں یومِ تاسیس پر پہلی بار لیگ نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا جو کہ 1906 میں پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک کبھی نہیں کیا گیا تھا۔
نتیجتاً سندھ اور بنگال کی مقامی آزادی کی حامی جماعتیں مسلم لیگ کے ساتھ آ ملیں جب کہ NWFP، پنجاب، بلوچستان، قلات، جموں و کشمیر اور آسام میں جناح اور ان کی جماعت کی مخالفت برقرار رہی۔
اس دوران چودھری رحمت علی برطانیہ سے ہی یہ سب دیکھتے رہے۔ 1946 کے انتخابات میں بنگال اور سندھ میں پاکستان کی حامی جماعتوں کی کامیابی کے بعد جناح بلوچ لیڈران کو بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر مارچ 1947 میں یہ پنجاب میں پاکستان مخالف یونینسٹ پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے دباؤ ڈالنے لگے جس کے نتیجے میں یہاں گورنر راج لگایا گیا اور NWFP میں پاکستان کے مطالبے پر ریفرنڈم کا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئے۔
سب سے زیادہ مسلم اکثریت رکھنے والے صوبہ پنجاب کی مخالفت کے باوجود NWFP میں پاکستان کے حق میں ریفرنڈم اور سندھ اسمبلی میں پاکستان کے قیام کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد نے پاکستان کے لئے قانونی بنیادی فراہم کر دیں۔
جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس ڈوگرہ مہاراجہ کی وفادار رہی کیونکہ شیخ عبداللہ ایک آزاد جموں و کشمیر کے فرمانروا بننا چاہتے تھے۔ شیخ عبداللہ چاہتے تھے کہ وہ آزاد ریاست کے پہلے وزیر اعظم بنیں۔ انڈیا سے الحاق کر کے مہاراجہ نے ان کے خواب چکنا چور کر دیے۔
اکتوبر 1947 میں جناح نے جموں و کشمیر میں مجاہدین بھیجنے کا فیصلہ کیا جو تقریباً 50 فیصد حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے لیکن پاکستانی فوج مجاہدین کے آزاد کروائے ہوئے تمام علاقوں کا کنٹرول حاصل نہ کر سکی اور 1948 میں کارگل، دارس، بارہ مولہ، پونچھ اور اکھنور ہندوستان کے قبضے میں چلے گئے جس کی وجہ سے مجاہدین کو لداخ کے دارالحکومت لیہ کا محاصرہ بھی ختم کرنا پڑا۔
چنانچہ اگست 1947 تک جناحؒ پاکستان کے لئے راہ ہموار کر چکے تھے۔ کیا چودھری رحمت علی یہ کر سکتے تھے؟ شاید نہیں، لیکن وہ بلاشبہ بابائے قوم ہیں جنہوں نے 1933 میں پاکستان کو اس کا نام دیا، آزاد پاکستان تحریک کی بنیاد رکھی اور اس وقت پاکستان کا جھنڈا بلند کیا جب کوئی اس کا نام لیوا نہ تھا۔