مئی 2022 میں پاکستانی کرنسی نے اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 200 روپے کی حد کو پار کر لیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کی بنیادی وجہ ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور زیادہ درآمدات ہیں، اور اس صورتحال کے نتیجے میں عوام مہنگائی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔
سری لنکا کے ڈیفالٹ اور اس کے ہولناک نتائج کے سامنے آنے کے بعد اب بظاہر پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال 30 جون 2022 کے اختتام تک تقریباً 16 ارب امریکی ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا کرنا ہے۔ موجودہ عالمی معاشی آرڈر کے تحت، اگر پاکستان سود پر قرضے یا برآمدات کے ذریعے امریکی ڈالر حاصل نہیں کر پاتا، تو وہ تیل اور دیگر ضروری اشیاء درآمد نہیں کر سکے گا۔
درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پاکستان کو کئی دہائیوں سے اس شیطانی چکر" کرنٹ اکائونٹ خسارے" کا سامنا ہے۔ پاکستان کی درآمدات 75 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جبکہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں۔ اس طرح 45 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ تقریباً 30 ارب ڈالر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھجوانے (Remittances)کے بعد بھی 15 ارب ڈالر کا ایک بڑا خلا پھر بھی باقی رہتا ہے۔
پاکستان کی بصیرت سے عاری حکمران اشرافیہ کے پاس آئی ایم ایف ( IMF) سے رجوع کرنے اور اس شیطانی چکر کو جاری رکھنے کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط معیشت کو تباہ اور قرض کی دلدل کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ آئی ایم ایف تیل، بجلی، گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کا حکم دیتا ہے، جس کے نتیجے میں کاروبار اور مینوفیکچرنگ کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے، اور ساتھ ہی ربا (سود) پر مبنی قرض لینے پر مجبور کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نسخے مہنگائی کا سونامی برپا کر کے عوام کو مشکلات سے دوچار کر دیتے ہیں۔ پھر، ہر نئی حکومت، جانے والی پچھلی حکومت کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے جس کا ارتکاب وہ خود بھی اس طرح کے الفاظ ادا کرکے کرتی ہے کہ" اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور ہمیں یہ کڑوی گولی نگلنی پڑے گی"۔
ن لیگ اور پی ڈی ایم جنہوں نے بڑے شوق سے یہ حکومت ایک بار پھر حاصل کی ہے، ان سے سوال ہے کہ کیا وہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں مزید نہیں بڑھائیں گے؟ کیا آئی ایم ایف کی شرائط مسترد کر دی جائیں گی؟ کیا بلاول بھٹو نے امریکہ جا کر نئی ڈکٹیشن حاصل نہیں کی؟ کیا روپیہ ڈالر کے سامنے ہمیشہ کی طرح سجدہ ریز نہیں رہے گا؟ کیا لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور بجلی سستے داموں ملنا شروع ہو جائے گی؟ کیا کشمیر کو بھارت کے جابرانہ اثر ورسوخ سے آزاد کرنے کے لیے کوئی عملی ا قدم اٹھایا جائے گا اور افواج کو متحرک کیا جائے گا؟
اسی طرح دوسری جانب عمران خان صاحب جو حکومت میں واپس آنے کے لیے نہایت بیتاب نظر آتے ہیں، کیا وہ آج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اگر فوری الیکشن کی صورت میں وہ حکومت بنا بھی لیں تو وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے؟ کیا عمران خان صاحب کسی جلسے میں عوام سے وعدہ کرنے کے لیے تیار ہیں کہ وہ آئندہ کسی سے بھیک کے نام پر "پیکج" نہیں مانگیں گے؟ کیا عمران خان صاحب عوام کے سامنے دعویٰ کرنے کے لیے تیار ہیں کہ وہ امریکہ کو دی گئی ائیر لائن آف کمیونیکشن (The Boulevard) بند کر دیں گے؟ کیا وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیر کی آزادی کیلئے ہماری بہادر اور تیار افواج کو متحرک کریں گے؟ ظاہر ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف دو سیاسی گروہوں کی آپس کی لڑائی ہے اور یہ دونوں آپشنز عوام کی چمڑی ادھیڑنے کے سوا کچھ نہیں۔
1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement) اور اس معاہدے کے تحت قائم ہونے والے عالمی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور اس معاہدے کے ذریعے وضع کیے جانے والے موجودہ عالمی معاشی نظام اور پالیسیوں نے چند ممالک میں اکثر دولت کے ارتکاز کو یقینی بنایا ہے، جس سے باقی دنیا بے آسرا اور غربت کا شکار ہو گئی ہے۔ اس عالمی معاشی آرڈر کے نتیجے میں واشنگٹن کے پڑوس میں واقع لاطینی امریکی ممالک بھی قرضوں میں ڈوبتے اور مسلسل نادہندگی (ڈیفالٹ) کا شکار رہتے نظر آتے ہیں، حالانکہ ان میں سے بہت سے ممالک وسائل سے مالا مال ہیں۔ 15 فروری 2022 کو ورلڈ بینک نے ایک انتباہ جاری کیا کہ تقریباً ستر ترقی پذیر ممالک قرضوں کے بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان ممالک میں سری لنکا، مصر، ارجنٹائن، کینیا، پیرو، جنوبی افریقہ، ترکی اور بھارت بھی شامل ہیں۔
موجودہ عالمی معاشی آرڈر قطعی اور کھلی ناانصافی پر مبنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تجارت صرف ایک ریاست یعنی امریکہ کی کرنسی سے منسلک ہے۔ ہر ملک کو بین الاقوامی تجارت کے لیے اس کرنسی کی ضرورت ہے جبکہ اس کرنسی کو چھاپنے کا اختیار امریکہ کے علاوہ کسی اور ملک کو نہیں۔ لہٰذا ہر ملک کو ڈالر جمع کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے لیکن اکثر ممالک ڈالر کی ضرورت کو اپنی برآمدات کے ذریعے پورا نہیں کر پاتے کیونکہ اکثر وبیشتر ان کی معیشت زراعت یا صرف بنیادی صنعتوں جیسا کہ ٹیکسٹائل یا فوڈ پروسیسنگ وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں بننے والی اشیاء کم قیمت ہوتی ہیں۔ لہٰذا زراعت اور بنیادی صنعتوں کی لاکھوں ٹن زائد پیداوار کو برآمد کرنے کے باوجود حاصل ہونے والے ڈالر انتہائی قلیل ہوتے ہیں جو ملکی درآمدات کے لیے درکار ڈالرز سے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ڈالر کے فرق کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف اپنے تباہ کن نسخوں سے مداخلت کرتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت وینٹی لیٹر پر چلی جاتی ہے۔
اسی لیے پاکستان اور پوری دنیا کو ایک بالکل نئے اور متبادل عالمی معاشی نظام کی ضرورت ہے۔ اسلام کے قانون کے تحت، مقامی اور بین الاقوامی تجارت سونے اور چاندی میں یا پھر سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی میں ہوتی ہے۔ اس بات کا ثبوت تاریخ سے ملتا ہے کہ صدیوں تک دورِ خلافت میں بین الاقوامی تجارت اسی طرح اور کامیابی کے ساتھ ہوتی آئی ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں صدیاں گزرنے کے بعد بھی کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا۔ یوں بین الاقوامی تجارت کو امریکی ڈالر سے غیر منسلک کرنے سے امریکی کرنسی کی اجارہ داری کا باآسانی خاتمہ کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا پر قائم امریکہ کی سیاسی اور معاشی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
اسلام کا معاشی نظام موجودہ عالمی معاشی نظام کی جگہ لینے کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کا یہ معاشی نظام موجودہ تمام بلواسطہ(Indirect) اور بلا واسطہ(Direct) غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ کر کے عوام کو اور کاروباروں کو براہ راست ریلیف دے گا اور صرف شریعت کے نازل کردہ ٹیکس کو نافذ کرے گا جو صرف ایسے دولت مندوں پر لاگو ہوتے ہیں جن کے پاس ضرورت سے زائد جمع شدہ مال موجود ہو۔
یہ شرعی ٹیکس سرمایہ دارانہ نظام کی طرح امیر اور غریب پر یکساں طور پر لاگو نہیں ہوتے بلکہ غربا تک تو اس کی دھول تک نہیں پہنچتی۔ اسلام کے معاشی نظام کے تحت پاکستان کے سالانہ بجٹ میں سے 3000 ارب کی سودی ادائیگیاں بند کرکے عوام پر اس رقم کو خرچ کیا جائے گا۔ یہ نظام بیرونی قرضوں کی اصل رقم کو ان حکمرانوں کی اضافی دولت کے ذخائر سے ادا کرے گا، جن میں انہوں نے اپنے دور حکومت میں رہتے ہوئے ہوشربا اضافہ کیا۔
لہٰذا یہ نظام ان ناجائز قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالے گا۔ اور یہ اسلامی ریاست وہ ہوگی جو کشمیر اور قبلہ اول کی آزادی کیلئے فوج کا درست استعمال کرے گی تاکہ انتہا پسند مودی اور اس کے چیلوں کو ناقابل فراموش سبق سکھایا جائے جو دن بدن ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے زندگی تنگ کیے جا رہے ہیں۔ ہم صرف ایسے نظام اور ایسی ریاست سے ہی ایک نمایاں عالمی پلئیر کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿وَفِي ذَٰلِكَ فَلۡيَتَنَافَسِ ٱلۡمُتَنَٰفِسُونَ﴾ "پس یہ ہے وہ جس کیلئے کوشش کرنے والوں کو کوشش کرنی چاہیے۔"(سورۃ المطففین، 83:26)۔