انڈیا کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں کنفیوژن برقرار

انڈین ایئر چیف مارشل بریندر سنگھ  دھنووا نے پاکستانی حدود میں بالاکوٹ کے مقام پر ہونے والے فضائی حملے میں ’ہلاکتوں کی تعداد‘ کے بارے میں آگاہ کرنے کی ذمہ داری بی جے پی حکومت پر عائد کر دی۔ انہوں نے کہا:’’انڈین فضائیہ کے لیے یہ کسی طور بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی گنتی کرتی۔‘‘

بریندر سنگھ  دھنووا کہتے ہیں:’’ایئرفورس کے لیے یہ واضح کرنا ممکن نہیں کہ تربیتی کیمپوں میں کتنے لوگ موجود تھے، ہم انسانی ہلاکتوں کی تعداد نہیں گنا کرتے۔‘‘

گزشتہ روز ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بالاکوٹ میں ’’جیشِ محمد کے تربیتی مراکز‘‘ پر فضائی حملوں میں 250 افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ انڈین فضائیہ نے نہ صرف پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جو پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی پر واپسی جاتے ہوئے جلدبازی میں بارود پھینک کر چلے گئے۔



پاکستانی فوج کا میڈیا ونگ یہ واضح کر چکا ہے کہ انڈین فضائیہ کے اس حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

تاہم انڈین ایئرفورس چیف نے یہ زور دیا ہے کہ وہ ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے تھے۔

انہوں نے کہا:’’اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کیوں ردِعمل ظاہر کرتا؟ اگر ہم نے جنگل میں ہی بم گرائے تھے تو اس حوالے سے کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ انڈین فضائیہ کے سربراہ غالباً یہ بھول گئے کہ انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے پڑوسی ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔

بریندر سنگھ  دھنووا نے ’’جاری آپریشن‘‘ کے حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا:’’ہم اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ مگ 21 طیارہ ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جنہیں بہتر ہتھیاروں اور راڈار کے ساتھ اَپ گریڈ کیا جا چکا ہے۔‘‘

بالاکوٹ فضائی حملوں کے بعد ایک مختصر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انڈیا کے خارجہ سیکرٹری وی کے گوکھالے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس فضائی حملے میں ’’بالاکوٹ میں جیشِ محمد کا سب سے بڑا تربیتی کیمپ تباہ ہوا اور جیشِ محمد کے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔‘‘ تاہم، انہوں نے کوئی اعداد و شمار فراہم کیے اور نہ ہی سوالات کے جواب دیے۔ بہت سے انڈین میڈیا چینلوں نے یہ رپورٹ دی ہے کہ ان فضائی حملوں میں تین سو سے زائد ہلاکتیں ہوئی۔

انڈین میڈیا اور حکام کی جانب سے دیے گئے بیانات پر اس وقت شبہات کا اظہار کیا گیا جب آئی ایس پی آر کی جانب سے بھارتی ایئرسٹرائیک کے باعث جنگل میں درخت اکھڑنے اور کریٹرز کی تصویریں جاری کی گئیں۔ بعدازاں، جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے بھی یہ خبر دی کہ انڈیا کے فضائی حملے میں صرف ایک ادھیڑ عمر شخص ہی زخمی ہوا اور تعمیرات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

انڈیا میں اب مختلف حلقے بھی ہدف کو نشانہ بنانے کے حوالے سے حکومتی دعوؤں کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس بارے میں سابق انڈین کرکٹر اور پنجاب کے سینئر سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے ٹویٹ کیا ہے:

’’تین سو سے زائد دہشت گرد ہلاک ہو گئے... کیا اس میں کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ان فضائی حملوں کا مقصد کیا تھا؟ کیا آپ دہشت گردوں کو ہدف بنا رہے تھے یا درخت آپ کے نشانے پر تھے؟ کیا اس ساری سرگرمی کا مقصد انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے تک محدود ہے؟‘‘

https://twitter.com/sherryontopp/status/1102451011447328769?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1102451011447328769&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.dawn.com%2Fnews%2F1467586

دوسری جانب امریکی اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے انڈیا کے عسکری ساز و سامان کے حوالے سے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق:’’اگر کل ہی بڑے پیمانے پر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو حکومتی اندازوں کے مطابق انڈیا اپنی فوج کو صرف 10 روزکے لیے ہی اسلحہ فراہم کر سکتا ہے۔اور فوج کا 68 فی صد سامان خاصا پرانا ہے اور بہت سا متروک ہو چکا ہے۔‘‘