پاک بھارت جنگ، پنجابیوں کا نقصان

پاک بھارت جنگ، پنجابیوں کا نقصان
یہ الفاظ میرے اپنے نہیں یا ذاتی تجزیہ بھی نہیں بلکہ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریر کے دوران ادا کیے۔ پاک بھارت جارحیت کے خلاف قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ہر رکن نے وطن کے دفاع اور سلامتی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، سب نے ہی دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر سراہا۔

وزیراعظم عمران خان نے خطے میں امن کی خاطر ایک روز قبل سرکاری ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا اور بھارت کو دوٹوک پیغام دیا کہ اب وہ پیچھے کے بجائے آگے کا پرامن راستہ تلاش کرے، مذاکرات کی میز پر آئے بات چیت سے ہی مسائل حل ہوں گے وگرنہ نقصان دونوں ممالک کے اقوام کا ہوگا۔

سیاسی قائدین تقاریر پر مہارت رکھتے ہیں اس لئے اسمبلی میں موجود سوائے دو جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے اور تعلق (پی ٹی ایم) سے ہے کو بولنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، محسن داؤڑ نے اس بات کا شکوہ بھی کیا کہ انہیں سپیکر بولنے کا موقع فراہم کریں۔

وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا نمبر آیا، انہوں نے ایک نقطہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور عالمی دنیا کو بتایا کہ پاک بھارت جنگ سے نقصان کشمیریوں اور پنجاب کے عوام کا ہوگا۔ ساتھ ہی وزیر نے پیشکش بھی کی کہ اب اس جارحیت کے سلسلے کو ختم کر کے امن کی آشا جلائی جائے۔

فواد چوہدری چونکہ سینیئر سیاستدان ہیں اور تعلق بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے رکھتے ہیں اس لئے اُن کی بات کو میں مذاق میں نہیں لے سکتا، یقیناً یہ بات یا خیال انہوں نے خدشات کی بنیاد پر کیے ہوں گے مگر اس پر سوالات اٹھانا تو فرض بنتا ہے۔

یہاں ساتھ ساتھ اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ پاک فضائیہ کی کامیاب کارروائی کے نتیجے میں زندہ گرفتار ہونے والے بھارتی پائلٹ کا تعلق بھارت کے جنوبی علاقے چنائی مدراس سے ہے۔

فواد چوہدری کی یہ بات سُن کر بحیثیت صحافی مجھے یقین نہیں آیا کیونکہ آج کے وزیر ایک دور میں صحافت کرتے رہے اور صحافی کا کام ہر چیز، ہیجانی کیفیت سے بالا ہو کر صرف رپورٹ کرنا ہوتا ہے یا پھر وہ بالکل غیرجانبدارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے۔

ویسے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں شہباز شریف جب امرتسر کبڈی لیگ کے فائنل میں مہمانِ خصوصی بن کر پہنچے تو انہوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب یہ بات بھارتی سرزمین پر کہی کہ ہماری ثفاقف، رسم و رواج ایک ہے۔ وہاں خادم اعلیٰ نے خود کو اور وہاں کے لوگوں کو ایک ہی قطار کا پنجابی تصور کیا۔ نوازشریف بھی اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کر چکے کہ شریف خاندان کشمیری ہے اور دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

بھارتی ریاست پنجاب کے گاؤں میں واقع جاتی امرا کے مقامی (کشمیری) بھی اسی بنا پر شریف خاندان کے ساتھ دل کھول کر ہمدردیاں رکھتے ہیں، انہوں نے گذشتہ برس سپریم کورٹ کی طرف سے نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے پر شریف خاندان کے لئے خصوصی دعائیں کی تھیں۔

پاک بھارت دشمنی کوئی نئی نہیں۔ وہاں سے بھارت لاہور کو فتح کرنے کی باتیں کرتا ہے تو یہاں پر تمام تر سنگین حالات اور کشیدگی کے باوجود کرتارپور کھولا جاتا ہے، دنیا افتتاحی تقریب میں گلے لگاتے بھی دیکھتی ہے۔

بھارت میں چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی وغیرہ کسی کی بھی، ہمیشہ جارحیت اور پاکستان کی مخالفت کو بنیاد بنا کر ہی سیاست کرتی ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی مودی کا یار، انڈین ایجنٹ، را، وغیرہ کے ناموں پر سیاست ہوتی ہے۔

کالم کے آخر میں فواد چوہدری صاحب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک ہے پاک بھارت جنگ سے نقصان پنجاب اور کشمیریوں کا ہوگا، دونوں طرف کے رشتے ختم ہوجائیں گے، بہت ساری چیزیں آنا جانا بند ہو جائیں گی مگر مسلط کردہ جنگ سے جو جانی مالی نقصان قبائلی عوام نے برداشت کیا، بلوچستان جو اس کا مسلسل سامنا کررہا ہے، یہ سب علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور یہاں رہنے والے اُسی قدر پاکستانی ہیں۔ اگر آپ یہ ذکر بھی کر دیتے تو اچھا ہوتا مگر شاید زیادہ نقصان کا خدشہ آپ کے ذہن پر حاوی رہا۔

مجھے اس بیان کے بعد کچھ حیرانی اور ندامت اپنے صحافیوں پر بھی ہوئی کیونکہ اگر اس طرح کا بیان کسی دوسری قوم کا رکن یا کسی دوسرے صوبے میں رہنے والا رہنما دیتا تو شاید معاملہ مختلف ہوتا، ٹاک شوز ہوتے، بریکنگ نیوز بنتی، دو یا تین روز تک ٹکرز کی پٹیاں چلتیں، آڈیو کالز لیک کی جاتیں، عدالت میں نااہلیت کی درخواستیں دائر کی جاتیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ کچھ نے اس پر فخر بھی کیا، جبکہ پڑھ لکھ کر جن لوگوں کا دماغ خراب ہے یا وہ بین الاقوامی سطح پر حالات کو سمجھتے ہیں انہوں نے تنقید بھی کی۔

پاکستان میں بسنے والی اقوام میں سے کوئی بھی بھارت، افغانستان، ایران سے جارحیت کا حامی نہیں۔ سب خطے میں امن چاہتے ہیں کیونکہ غریب عوام کے مسائل پارلیمان میں نہیں بلکہ قبر میں جا کر ہی حل ہوتے ہیں۔