افغان امن معاہدہ: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

افغان امن معاہدہ: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والا نوجوان جو 18ویں آٸینی ترمیم پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے، اس سے جب میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ سبجیکٹ کیوں چنا؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ میرا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں ہے مگر میرا دل، دماغ اور ضمیر گواہی دے رہا ہے کہ یہ صدر آصف علی زرداری کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ بطور پختون میں کیسے درگزر کر دوں کہ زرداری صاحب نے ہمیں ہماری شناخت دی ہے۔ یہ کہتے ہوٸے انہوں نے اپنے بریف کیس سے ایک فاٸل نکالی جس میں میثاق جمہوریت کا دستاویز تھا۔ کہنے لگا کہ یہ میثاق جمہوریت ہی 18ویں ترمیم کی روح ہے۔

یہ اس دن کا واقعہ ہے جب ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیاں معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے، میں پوچھا کہ بطور پختون آپ اس معاہدے کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ وہ زور سے قہقہہ لگاتے ہوٸے کہنے لگے مجھے چھوڑیں آپ یہ بتاٸیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ جاتے جاتے کہنے لگے، ہماری اصل اشرافیہ کو عقلمند، ذہین اور قابل قیادت پسند نہیں ہے۔ صدر زرداری نے تو اٹھارہویں ترمیم سے ملک کی خارجہ پالیسی جوڑنے کا اختیار پارلیمنٹ کے سپرد کیا تھا۔ اب اپنے ملک کی خارجہ پالیسی سمندر پار ہے، پارلیمنٹ جو بااختیار تھی اب بے اختیار ہے۔

وہ نوجوان طالبعلم تو خداحافظ کہہ کر رخصت ہوٸے مگر مجھے 80 کی دہاٸی میں شروع ہونے والا کراٸے کا جہاد یاد آیا اور 1977 میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی۔ جب بڑے بڑے مدرسے منی چینجر کی دکان بن گٸے تھے، جس کے نتیجے میں اقتدار کے لالچی جنرلوں نے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔ ڈالروں سے بھرے بڑے بڑے سوٹ کیسوں کی چمک نے انہیں وطن کی آزادی کو رہن رکھنے پر اکسایا تو ہماری خود داری، آزادی اور خود مختاری 4 اپریل 1979 کو تختدار پر جھول کر ابدی نیند سو گٸی۔

دو امریکی دانشور جو 1989 میں امریکی انتظامیہ کا حصہ تھے۔ انہوں نے اپنی مشترکہ کتاب میں لکھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے امریکی صدر سینٸر بش سے کہا تھا کہ آپ جن جنگجوؤں کی حمایت کر رہے ہیں، وہ میرے ملک کیلٸے خطرہ ہیں۔ کل یہ دنیا کے امن کیلٸے خطرہ بن جاٸیں گے۔

ناٸن الیون کے بعد جب امریکی انتظامیہ کو ہوش آیا تو ہماری اشرافیہ کو بھی ناک کے بل الٹا چلنا پڑا۔ مگر اب جب ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان رومانس پھر سے جاگ اٹھا ہے تو دم توڑتی خارجہ پالیسی سوال کر رہی ہے کہ قوم کہاں کھڑی ہے۔