ایک ’’ڈاگ شو‘‘ اور خلیل الرحمان صاحب کی مردانگی کے مظاہرے

ایک ’’ڈاگ شو‘‘ اور خلیل الرحمان صاحب کی مردانگی کے مظاہرے
نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار کے بعد حالات حاضرہ کے نام پر منعقد کئے جانے والے ایسے ’’ڈاگ شوز’’ کی قطعاً کوئی کمی نہیں رہی جو اپنے شرمسار ناظرین کو مزید شرمندہ کرنے کا کام خوش اسلوبی سے کرتے ہوں۔ مہمان یا میزبانوں کے منہ سے پھول جھڑنے کے مناظر تو اس قسم کے شوز کا خاصا ہوتے ہی ہیں۔ پر اصل کامیابی کا مستحق، میزبان کے نام پر بیک وقت مدعی اور منصف اپنے آپ کو اس وقت گردانتا ہے جب اس کی کاوشیں اپنے مہمانوں کو آپس میں دست و گریباں کرانے میں رنگ لائیں اور پروگرام ریٹنگ کے چارٹ پر پست اخلاقی کے خوب تارے سمیٹے۔

ایسی ہی ایک کامیاب کاوش کا انعقاد ایک خواتین میزبان کے ہاتھوں گذشتہ روز وقوع پزیر ہوا۔ جب سٹوڈیو میں بیٹھے خلیل الرحمان المعروف دو ٹکے کی عورت والے صاحب کو ٹیلی فون پر اپنے ساتھی مہمان پر ہیجانی کیفیت میں چیختے چلاتے دیکھا گیا۔ تیرا جسم، میری مرضی کے علمبردار صاحب نے نا صرف ایک بے ضرر نعرہ میرا جسم، میری مرضی کو گھٹیا گردانا بلکہ مردانگی کے زعم میں مزید غلاظت کا استعمال کرتے ہوئے ساتھی خاتون سے پوچھا کہ تیرے جسم میں ایسا ہے کیا، تیرے جسم پر مرضی چلاتا کون ہے۔

مردانگی کا آلودہ خمار، شرم و حیا پر مزید بھاری ہوا تو موصوف نے انگریزی میں پھول جھاڑنے کے بعد مہمان خاتون کو مطلع کیا کہ تھوکتا نہیں تیرے جسم پر کوئی۔ پر شاید ابھی بھی نازک انا کی بھرپائی ہونا باقی تھی تو تیری ایسی کی تیسی، الو کی پٹھی اور گھٹیا عورت جیسے بیش بہا الفاظ بھی خاتون کی تعظیم میں ادا کیے گئے۔

اس ساری گفتگو میں جب مہمان خاتون کی دبی دبی ٹیلیفونک دفاعی آواز سننے کو ملتی تو میزبان خاتون کا ڈیکورم کا خیال رکھنے کا مشورہ فوراً حاضر ہو جاتا۔ ویسے دیکھنے والے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ میزبان خاتون کے چہرے پر اطمنیان اس خواہش کی غمازی تھی کہ کاش خاتون مہمان اس وقت سٹوڈیو میں ہی موجود ہوتیں، شو کو چار چاند لگنے کی بجائے آٹھ چاند لگ جاتے۔

ان کے لئے مشورہ ہے کہ اپنی محنت اسی طرح سے جاری رکھیں، کل نہیں تو پرسوں اسی طرز کے مہمانوں کے ساتھ اسی طرز کی گفتگو کی وجہ سے وہ اپنی نیک کاوشوں میں ضرور کامیاب ہو جائیں گی۔ بات کا رخ واپس عورت کو دو ٹکے کا ثابت کرنے والے اس ماہر کے خیالات کی طرف موڑی جائے تو موصوف کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ پہلے بھی اپنی کمزور مردانگی کے زعم میں خواتین کو مردوں کی برابری کرنے کے لئے بس لوٹنے، مرد کو اغوا کرنے اور گینگ ریپ کرنے کا کھلا چیلنج دے چکے ہیں۔

خلیل صاحب کو چاہیے کہ وہ ان چیلنجز میں مزید کچھ اشیا کا اضافہ کریں، جس میں کیمرے کے سامنے خواتین کو مردوں کے جسموں کو پرکھنے اور تھوکنے جیسے ٹاسک ملیں گے۔ اگر یہ بھی ناکافی ہوا تو بھری محفل میں عورتوں کے لئے مردوں کے خلاف ایسی کی تیسی، الو کے پٹھے اور گھٹیا مرد جیسے القابات کہلانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اب کی بار بھی اگر یہ دو ٹکے کی عورتیں ناکام ہوتیں ہیں تو ان کو سمجھ جانا چاہیے کہ محترم خلیل الرحمان صاحب جیسے مردوں کی برابری کرنا ان کے بس کی بات قطعی نہیں ہے۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔