عورت مارچ رکوانے کیلئے دائر درخواست خارج

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ عورت مارچ کے کارڈز اور بینرز اسلامی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں لہٰذا لاہور ہائی کورٹ عورت مارچ کو روکنے کا حکم دے۔ اگر کسی کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ آئین میں خواتین کو حقوق دیے گئے ہیں اور خواتین کی فلاح کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔

عورت مارچ رکوانے کیلئے دائر درخواست خارج

لاہور ہائیکورٹ نے عورت مارچ رکوانے کے لیے دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔

جسٹس شاہد کریم نے شہری اعظم بٹ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا۔

یاد رہے کہ 29 فروری کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 8 مارچ کو منعقد کیے جانے والے عورت مارچ کو رکوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی تھی۔ درخواست میں ڈپٹی کمشنر لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ عورت مارچ کے کارڈز اور بینرز اسلامی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں لہٰذا لاہور ہائی کورٹ عورت مارچ کو روکنے کا حکم دے۔

درخواست گزار کے مطابق اگر کسی کو بنیادی حقوق نہیں مل رہے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ آئین میں خواتین کو حقوق دیے گئے ہیں اور خواتین کی فلاح کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ریاست کو عورت مارچ کی غیر اخلاقی تشہیر روکنے کا حکم دیا جائے۔

واضح رہے کہ2018 سے 8 مارچ کو خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیمیں لاہور کے علاوہ، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے بڑے اور اہم شہروں میں ’عورت مارچ‘ منعقد کر رہی ہیں۔

کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے لے کر حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا کر مارچ کرتی ہیں۔ اس موقع پر عورتوں کی جانب سے اٹھائے گئے کچھ متنازع بینرز عورت مارچ پر تنقید کا باعث بنتے ہیں۔