اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا: کیا مسجد نبوی کی پہچان گنبد خضریٰ کا اصل رنگ کچھ اور تھا؟

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا: کیا مسجد نبوی کی پہچان گنبد خضریٰ کا اصل رنگ کچھ اور تھا؟
پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسجد نبویﷺ، خانہ کعبہ کے بعد سب سے مقدس اور اور بابرکت مقام عبادت ہے۔ یہ مسجد خود پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے تعمیر کی تھی۔ عمومی طور پر ہر مسلمان کے نزدیک یہ حقیقت مسلم ہے کہ افتاد زمانہ کیا ہی رہی ہو، مقامات مقدسہ اپنے خاص قدرتی جوہر سے محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا اور اگر مسجد نبوی کو ہی لیا جائے تو  شاید حقائق اس سے مختلف بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔

مثال کے طور پر سبز گنبد مسجدِ نبوی کی سب سے نمایاں تعیمرات میں سے ایک ہے۔ اسے پیغمبرِ اسلام ﷺ،  خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کی قبروں کے اوپر بنایا گیا ہے یہ انکی زندگیوں میں نہیں تھا۔

بی بی سی نے اپنے ایک خصوصی ضمیمے میں لکھا ہے کہ علی بن احمد السمھودی اپنی کتاب وفا الوفا میں لکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ  کی قبر پر پہلا گنبد 650 سال کے بھی بعد بنایا گیا تھا اور سب سے پہلا گنبد 1279 (678 ہجری) میں سلطان قلاوون نے بنوایا تھا۔ یہ گنبد لکڑی کا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=ymqatDt92W4

جو سبز گنبد ہم آج دیکھتے ہیں وہ درحقیقت پیغمبرِ اسلام کے کمرے کے اوپر موجود باہری گنبد ہے۔ اس کے اندر ایک اور گنبد ہے جو جسامت میں اس سے کہیں چھوٹا ہے اور اس پر نبی اکرمﷺ حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ  اور حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کے نام کندہ ہیں۔ یہ نیچے سے چوکور اور اوپر سے آٹھ کونوں کی ساخت کا حامل تھا۔ جزیرہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اسے جل جانے کے بعد ایک سے زائد مرتبہ از سرِ نو تعمیر کیا گیا اور عثمانی سلطان غازی محمود نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔رفعت پاشا کی ڈائریاں، جلد اول، صفحہ 464 سے 465 کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں کہ 1837 میں سبز پینٹ کیے جانے سے قبل اسے طویل ترین عرصے تک سفید اور بعد میں بینگنی نیلے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔

نبی اکرم ﷺ کا مکان مسجد کے بالکل ساتھ بنایا گیا اور وہاں ہی ان کا انتقال ہوا اور وہیں ان کی اہلیہ حضرت عائشہ کے حجرے میں انھیں سپرِد خاک کیا گیا۔

بی بی سی کے اس خصوصی ضمیمے میں لکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر زریوا کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ  کی وفات ہوئی اور ان کی تدفین کے لیے مقام کے انتخاب کے لئے مشاورت جاری تھی  تو حضرت ابوبکررضی تعالیٰ عنہ نے انھیں بتایا کہ کہ حضرت محمدﷺ کے مطابق  نبیوں کو وہیں دفنایا جاتا ہے جہاں اللہ ان کی روح نکالتا ہے۔ جب خلیفۂ اول بیمار ہوئے تو انھوں نے اپنی بیٹی سے اجازت مانگی کہ کیا وہ ان کے حجرے میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے قریب دفن ہو سکتے ہیں جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ نے رضامندی ظاہر کر دی۔

خلیفۂ دوم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا اور انھیں بھی پیغمبرِ اسلام اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کے قریب دفن ہونے کی اجازت مل گئی۔ تاہم کئی صدیوں میں مسجد کے پھیلاؤ کی وجہ سے قبروں والا یہ حجرہ مسجد کے اندر آ گیا ہے۔ مسجدِ نبوی کی پہچان یہ معروف سبز گنبد جس کا رنگ پہلے بینگنی ہوا کرتا اس حجرے کے اوپر ہی بنایا گیا تھا . 

یاد رہے کہ جب پیغمبر اسلام ﷺ نے مدینہ کی جانب ہجرت کی تو اسوقت یثرب کہلائے جانے والے اس شہر کی آبادی 10 ہزار سے 30 ہزار نفوس کے درمیان تھی۔ مسجد نبوی  اپنے ابتدائی رقبے کے لحاظ سے اس وقت اب سو گنا بڑی ہے اور تقریباً پورے قدیم  یثرب شہر پر پھیلی ہوئی ہے۔