فردوس عاشق اعوان بمقابلہ اسسٹنٹ کمشنرسونیا صدف : کون جیتا اور کون ہارا؟

فردوس عاشق اعوان بمقابلہ اسسٹنٹ کمشنرسونیا صدف : کون جیتا اور کون ہارا؟
فردوس عاشق اعوان نے سیالکوٹ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کی سرزنش کی۔ اس واقعہ کو مختلف لوگ مختلف نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کے مطابق فردوس عاشق اعوان نے جو کیا وہ ان کی ذمہ داری تھی اور یہ عمل قابل ستائش ہے جبکہ کچھ اسسٹنٹ کمشنر کی سرزنش پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیے اس کو دو زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک طرف فردوس عاشق اعوان کی جانب  سے اپنی نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ویسےتو وہ مختلف اسٹنٹس کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنی ہی رہتی ہے مگر یہاں چونکہ معاملہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور عوامی خدمت کا عوام کے سامنے اظہار کا تھا اسی لیے فردوس عاشق اعوان نے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ لیکن حقیقتاً ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ٹھیک کام نہ کرنے پر سوال کرے۔ البتہ ان کا الفاظ کا چناؤ اور بحیثیت عوامی نمائندہ ان کا ایک سرکاری افسر کے ساتھ برتاؤ انتہائی نچلے درجے کا تھا۔

دوسری طرف اسسٹنٹ کمشنر کو زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور معصوم سمجھنا بھی اس واقعہ کا کوئی مدلل پہلو نہیں ہے۔ عوامی نمائندے کا یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری افسر سے کام میں غفلت برتنے کا سبب پوچھے۔ یہاں پر اسسٹنٹ کمشنر کا فردوس عاشق اعوان کو تسلی بخش جواب نہ دینے، بہانے کرنے اور پھر وہاں سے بھاگ جانے سے ان کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ جب ایک سول سرونٹ ایک عوامی نمائندہ کے سامنے اپنی انا کا اتنا برملا اظہار کرتی ہو تو ان کا عوام کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا اور وہ عوام کو کس لہجے میں جواب دیتی ہوگی۔ یہاں پر واضح کرتا چلوں کہ بات صرف ان مخصوص اسسٹنٹ کمشنر کی نہیں ہے بلکہ غرور اور انا کے مالک اس افسر شاہی نظام کی ہے کہ جس کے تحت یہ افسران اب تک خود کو سرکاری نوکر اور عوام کا ملازم سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ایک اور پہلو، جسے میں مضحکہ خیز سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ یہ سیاست دان چونکہ عموماً کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تو ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والے افسران سے پوچھ گچھ کرے۔ یہ بالکل مضحکہ خیر بات ہے۔ سیاستدان تعلیمی لحاظ سے اگر قابل نہیں تو اپنے ساتھ عوام کا اعتماد لاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت سے کام کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ اور اسسٹنٹ کمشنر سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے آئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو سر پہ بٹھانا چاہیے اور انھیں گرمی اور رش سے دور رکھ کر لاڈ پیار سے سمجھانا چاہیے۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے انھوں نے ریاست یا عوام پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ سرکار ان کو ان کی قابلیت اور ان کے کام کا نہ صرف معاوضہ ادا کرتی ہے بلکہ ان کو عزت اور تمام سہولیات بھی دیتی ہے تاکہ ان کو اپنا کام کرنے میں کوئی مشکلات نہ ہوں۔ اور عوام کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے۔ اسی وجہ سے انھیں سول سرونٹس کہتے ہیں۔

مصنف ایک سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل @khanzqasim ہے۔