میرا خیال تھا کہ میں ان دو نوجوانوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ میرے شاگرد ہیں۔ جن کوتخلیقی سوچ (ideation) کے مختلف پہلوؤں کے کتنے ہی سبق پڑھا چُکی ہوں۔ اسی لئے جب میں نے اُنھیں فرطِ جذبات سے نڈھال تحریکِ لبیک کے بانی کے جنازے میں شرکت اور اس کے “روح پرور” مناظر کا ذکر عقیدت سے کرتے سُنا تو مُجھے از حد تعجُب ہوا۔ کہ یہ کیا سبب بنا کہ آج کل کے پڑھے لکھے نوجوان ایک پُر تشدُد تحریک کے معتقد ین میں شامل ہو گئے؟ وہ بدکلامی جو خادم حسین رضوی ناموسِ رسالت جیسے برگزیدہ موضوع کے ساتھ نتھی کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے یہ اُسے کیسے برداشت کرتے تھے؟ یہ سوال شائد وقت دھول میں گم ہو جاتے۔ لیکن اپریل 2021، یعنی ابھی کُچھ دن پہلے، تحریکِ لبیک کی ایک کال پر ایسے ہنگامے پھوٹ پڑے کہ اُنھوں نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور پھر یہ غیض و غضب سے بھرے جھتے اس قدر بے باک ثابت ہوئے کہ انہیں پولیس، فوج اور رینجرز کے عملے کو اغوا کرنا، مارنا، اور مار ہی دینا معمول کا عمل لگا۔ میں نے اپنے اُنہی شاگردوں میں جب ان ہنگاموں کے بعد بھی حرفِ ملامت کے بجائے تحریکِ لبیک کے لئے غیر مشروط اور اندھی حمایت محسوس کی تو مجھے بیسویں صدی کا ایک تلخ تاریخی باب تواتر سے یاد آنے لگا۔ اور اُسی باب میں اپنے سوالات کا کچھ جواب بھی ملا:
پہلی جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں سے گھبرائے، روایتی اور پرانے جرمن سیاست دان اک عجب افراتفری میں مبتلا آپس میں دست و گریباں تھے۔ اس حشر کے سماں میں ایک تالے بنانے والا مشین مکینک، اینٹن ڈریکسلر (Anton Drexler)، ایک نئی سیاسی پارٹی اور نظریے کی بنیاد رکھ رہاتھا۔ “جرمن ورکرز پارٹی” (DAP) جو الٹرا دائیں بازو کی نیشنلسٹ، نسل پرست خیالات رکھنے والے چھوٹے سے گروہ پر مشتمل تھی، وہ اپنے مداحین کا حلقہ بتدریج وسیع کرنے میں جتی تھی۔ DAP کا جرمنی کی سیاست میں بظاہر کوئی مقام نہیں تھا۔ علاوہ اس کے کہ گاہے گاہے جرمن حکومت جاسوسوں کے ذریعے اس کی سرگرمیوں کو ریکارڈ پر لے آئے۔ وہ بس اپنے وقت کا جوشِ خطابت کے لئے ایک پلیٹ فارم سمجھا جاتا رہا۔ جہاں پہلی جنگِ عظیم کی ذلت کے صدمے کے شکار جرمن دور کی کوڑیاں لاتے۔
ہوا یوں کہ 1919 میں قائم ہونے والی DAP پارٹی آن کی آن میں ہٹلر کی سرکردگی میں وہ نازی پارٹی بن گئی جس نے جوشِ انتقام اور victimhood کے جذبے سے مغلوب ہو کر اپنے ہم وطن یہودیوں اور جرمن آبادی کے وہ حلقے جو خالص آریائی نسل کے پیمانے پر پورے نہیں اُترتے تھے کی نسل کشی کا ایسا اندوہناک باب رقم کیا کہ جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ آج تک اس سوال پر ریسرچ جاری ہے کہ اس انسانیت سوز قتل و غارت میں اعلیٰ تعلم یافتہ، فنونِ لطیفہ، فلسفے اور سائنسس کی بڑی، بڑی نامی گرامی ہستیوں نے شرکت کیوں کی؟ اور یہ کیا ہوا کہ ہر خاص و عام، نوجوان اور بوڑھے، مرد و زَن جرمنوں نے ہٹلر اور اُس کے ساتھیوں کی قائم کردہ اننڈسٹریل پیمانے کی قتل گاہوں میں فعال کردار کیوں اور کیونکر قبول کیا؟ یہ وہ جرمن قوم تھی جو کلاسیکی موسیقی میں ایک مُنفرد مقام رکھتی تھی۔ بیتھوون (Beethoven)، باخ (Bach)، ہیڈَن (Hayden)، شوبہٹ (Schubert)، ویگنر (Wagner) جیسے دنیائے موسیقی کے اساتذہ کے دلدادہ، اور نفیس ترین ذوق کے حامل جرمنوں کے ذہنوں پر کیا افتاد آن پڑی کہ اُنہیں نازی مظالم کے شریکِ کاروں کا رول قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہں ہوئی؟
بلا شبہ انسان کا مادی اور علمی ترقی کا کارنامہ اور genius لامحدود ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ قبائلی گروہ بندی، یعنی ’ہم اور وہ‘ (Us & Them) میں تفریق کرنے کی حیوانی جبلّت سے چھٹکارہ کیوں نہ پا سکا؟ اخلاقی ترقی (moral development) پر ریسرچ بس ابھی اتنا ہی جان پائی ہے کہ نسلی، لسانی، مذہبی، علاقائی، سیاسی، اور وطنی شناخت سے لگاؤ انسان کو غیر معمولی رعایت اور ظُلم دونوں پر کچھ ایسے مائل کرتا ہے کہ وہ ضمیر کی خلش سے مُبرا ہو جاتا ہے۔ Psychology of Terrorism کے مصنف Randy Borum اور نفسیات کے دوسرے ماہرین کی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان تمام گروہی وفاداریوں کا منبع عموماً خود ساختہ نظریے سے غیر معمُولی لگاؤ کا غیر لچکدار رویہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقدس عہد جس کی پاسداری کے لئے ہر فعل جائز محسوس بھی ہوتا ہے۔ اور اس کو جائز ثابت کرنے کے لئے نہایت معتبر توجیہات بھی ذہن پوری ایمانداری سے گھڑ لیتا ہے۔ نظریے کا شکنجہ جاہل اور عالم میں تفریق نہں کرتا۔ اس کی وفاداری کی تڑپ انسان کو اخلاقیات کے ان معیارات سے بھی غافل کر دیتی ہے جن سے رودگرانی کا تصور اس نے کبھی عام زندگی میں نہیں کیا ہوتا۔ یہی ’ہم اور وہ‘ کی نفسیات نازی پارٹی نے جرمن قوم کو انسانی اخلاق کی قدروں سے دور لے جانے کے لئے بہت چابکدستی سے استمعال کی۔
ایسے نظریاتی گروہوں کے قوموں پر اثرات کے موضوع پر روس ڈوتھیٹ (Ross Douthat) اپنے نیو یارک ٹائمز کے کالم 'Babylon Berlin,' Babylon America میں لکھتے ہیں کہ علاوہ نازی پارٹی کے، جو اپنی جرمنی پر حکمرانی کے ہدف پر کمال یکسوئی رکھتی تھی، کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ نازی کبھی جرمنی کے حکمران بن جائیں گے۔ لیکن ہوا یوں کہ ان سر پھرے جرمنوں کے اس گروہ نے 1929 کے الیکشن میں 18 فیصد ووٹ لینے کے محض چار سال کے بعد اپنا ووٹ بینک 44 فیصد تک پہنچا دیا۔ اور 1933 میں ہٹلر کی سربراہی میں عنانِ حکومت سنبھال لی۔
امریکہ میں ایک محدود طبقہ ٹرمپ حکومت کی نسل پرستی کے رحجان کی حوصلہ افزائی سے خائف 2021 کے امریکہ اور 1919 کے جرمنی میں مماثلت دیکھتا ہے۔ اور وہ ایسا کیوں نہ دیکھے؟ ؔکہ ٹرمپ کے حمایتیوں کا دارالحکومت واشنگٹن ڈی۔سی۔ پر حملہ آور ہونا، اور رپبلِکن پارٹی کا ٹرمپ کی کٹر رجعت پسندی کے آگے گھٹنے ٹیک دینا امریکہ کے تناظر میں کچھ کم حیران کن اور حوصلہ شکن واقعات نہیں ہیں۔ Atlanta امریکہ میں ایک آدمی بندوق پکڑتا ہے اور آٹھ ایشائی لوگوں کو قتل کر دیتا ہے۔ مارجری ٹیلر گرین (Marjorie Taylor Greene) کی صورت میں کٹر دائیں بازو کے امریکنوں کو امریکہ کی ایک سٹیٹ میں نمائندگی بھی مل گئی ہے۔ ہاؤس ریپ مارجری گرین کھلم کھلا ٹرمپ حکومت کی نسل پرست اور اینٹی امیگریشن پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے کسی مروجہ امریکی سیاست کے قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ انہیں یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ قائدین کو قتل کر دیا جائے! سفید فام امریکن پولیس میں بھی سیاہ فام امریکنوں پر پرتشدد حملوں کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ اور پھر 21 ویں صدی کا چاہے یورپ دیکھ لیں، یا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہندوستان۔ سبھی انسانی حقوق بھلائے رنگ و نسل اور قوم پرستی کے سحر میں مبتلا اپنے ہی ہم وطنوں میں مختلف گروہوں کو ’دوسرا‘ یا ’the Other‘ کہہ کر نفرت کا کھلے عام پرچار کرنے میں عار محسوس نہیں کر رہے۔ میانمار کی امن نوبل پرائز یافتہ اونگ سین سو چی (Aung San Suu Kyi) سمیت سب اس “ہم اور وہ” کے کھیل میں انسانیت کے چولے اتار کر مذہب، نسل، رنگ کی بنیاد پر اپنے شہریوں کو ملک بدر کرنے یا دوسرے درجے کے شہری بنانے کے مشن پر جٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی اپنی آبادی میں اکثریت اور اقلیت کی تفریق کر چُکا ہے! وہ مُشترکہ انسانیت (shared humanity) جو “رب العالمین” کے عظیم پیغام میں کندہ ہے، وہ مختلف انسانی گروہوں کو جوڑے رکھنے کا سب سے عظیم رشتہ ہے۔ یہ مقامِ افسوس ہے کہ یہ رشتہ جس کی گواہی ہمارا رب خود دیتا ہے وہ گزرتے ماہ و سال میں بجائے جڑ پکڑنے کے مائلِ با تنزل ہے۔
سو کیا تاریخی اور حقیقی دنیا کے یہ اشارے کافی نہیں کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، حکومتِ وقت، اپوزیشن، اور میڈیا تحریکِ لبیک جیسے گروہ جسےکبھی دہشت گرد تنظیم اور کبھی سیاسی پارٹی کا درجہ دینا پڑے اُس کی اگلے الیکشن میں مقبولیت کا تعین کر سکیں؟ پاکستان جو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مُستحکم ملک ہے، جہاں دہشت گردی ابھی بھی گھات لگائے ہوئے ہے، وہاں تحریک لبیک کی الیکشن میں تیسری پوزیشن پر قابض رہنا ایک بہت ہی معنی خیز خبر ہے۔
اس ضروری سوال کا جواب بہت سے تجزیہ نگار ڈھونڈھ چکے ہیں کہ کب اور کیسے جن پاکستانی نے کبھی مذہبی جماعتوں کو حکومت بنانے کے لئے ووٹ نہیں دیے انہوں نے تحریکِ لبیک کو اتنی تعداد میں 2018 کے الیکشن میں ووٹ دے دیے؟ اور یہ کہ وہ کیسے محض چھ سال کے عرصے میں کئی حلقوں میں تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن گئی؟ یہ تجزیہ بھی ہو چکا کہ 1977 سے 1988 کے دوران ضیاالحق کی سیاست میں لگائی ہوئی مذہبی اور فرقہ پرستی کی سیندھ ایک بہت مہیب سماجی اور سیاسی دراڑ کی صورت پاکستان میں ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ جس کے ایک کنارے پر اب تحریکِ لبیک ’ہم یا وہ‘ کی درجہ بندی کے تحت پوری یکسوٖئی سے اُن “دوسرے” پاکستانیوں کے خلاف جتھا بند ہو رہی ہے جو اُن سے مُتفق نہیں۔ دوسرے کنارے پر بیشتر پاکستانی اپنے روایتی ڈھیلے ڈھالے انداز میں اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ جیسے 1258 کے بغداد کے محصورین! جو ہلاکو خان کی فوج کی تباہ کاریوں سے بے نیاز کسی معجزے کے انتظار میں رہے۔ ایک پاکستانیوں کا طبقہ وہ بھی ہے جو دو وقت کی روٹی کے لئے سرگرداں کسی سیاسی مسئلے میں نہیں الجھتا۔ لیکن پچھلے دنوں تحریکِ لبیک کی کال پر وہ سب فکریں بھلا کر ہڑتال میں دل و جان سے لاٹھیاں اٹھائے، اپنے روزگار اور پولیس دونوں سے بے پروا کراچی سے خیبر تک سڑکوں پر نکلا۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ حالات کا بہترین تجزیہ کرتے ہوئے واضح کرتی ہیں کہ تحریکِ لبیک کے پاس کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ پھر بھی عام غریب پاکستانی فرقے اور عقیدے سے بالا تر ہو کر تحریکِ لبیک کے خود ساختہ ناموسِ رسالت کے یک نکاتی ایجنڈا سے رود گرانی نہیں کرتا۔ آٹے میں نمک کے برابر کچھ لوگ آکسفورڈ کی فارغ التحصیل حاضر سرکار کی سادگی پر ضرور انگشت بدنداں ہیں۔ کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک طرف تحریکِ لبیک کو دہشت گرد قرار دیتی ہے اور دوسری طرف اسے الیکشن میں حصہ بھی لینے دیتی ہے! کیا ہے کہ بقول قرت العین حیدر ’یہ سیاسی معاملات کچھ زیادہ پیچیدہ اور نازک ہیں۔۔۔‘ سو حکومت ہُما شُما عوام پر ان پُر پیچ مسائل کا بار نہیں ڈالتی۔ جس نے جو سمجھنا ہے سمجھ لے!
یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت میڈیا کے تقریباً تمام نامور تجزیہ نگار اپنی بساط بھر کوشِش سے ریاست، حکومت، اور اپوزیشن کی توجہ اس بڑھتے ہوئے مہیب خطرے کی طرف دلا رہے ہیں۔ میڈیا کا یہ ذمہ دارانہ رویہ کُچھ نہ کُچھ آس دلاتا ہوا اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید وہ ادارے جنہیں مُقتدرہ کہا جاتا ہے تحریکِ لبیک کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خطرے کو بھانپ رہے ہیں؟ لیکن پھر یہ بھی ایک خبر ہے کہ ادارے جو اہمیت رکھتے ہیں وہ تحریک لبیک کو ملکی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا جسٹِس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ آنا کُچھ بدلے ہوئے حالات کا اشارہ ہے! محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کُچھ بھی یقین سے کہنا عبث ہے۔
جو کُچھ اوپر بیان کیا گیا ہے وہ تحریکِ لبیک کے مسئلے پر مبنی دو قسطوں پرمُشتمِل مضامین کا پہلا حصہ ہے: ۱) پہلی قسط مسئلے کی تصویری (descriptive) روداد ہے ۔ ۲) دوسری قسط مسئلے کو حل کرنے کے نُسخے (prescriptive) کے کُچھ چیدہ چیدہ خدوخال پر مُشتمِل ہو گی۔ اس تصویری خاکے سے جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ لبیک کے بانی کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ اور یہ کہ وہ بے کراں جنازے کا ہجوم ایک ایسے توانا ووٹ بینک میں ظاہر ہو گا جو ناموسِ رسالت کے نام پر دہشت اور تشدد کو استمعال کر کے اپنے نظریات مُلک پر ٹھونسے گا۔ خبردار رہیں کہ یہ محض مفروضے نہیں! اپنے نئے سربراہ کی رہنُمائی میں جو پُر تشدُد احتجاج اس جماعت نے کُچھ دن پہلے برپا کیا تھا وہ تمام اداروں، حکومت، اپوزیشن اور عوام کو خبردار کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور اس لئے بھی کہ اس اُمڈتی ہوئی اُفتاد کو قابو کرنے کے لئے کیا پالیسی بنائی جائے۔ کراچی کے حالیہ ضمنی انتخاب سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ عوام کے ایک بڑے حلقے کو تحریکِ لبیک کی حالیہ توڑ پھوڑ اور مارا ماری کو ناموسِ رسالتؐ سے جوڑنے کے فعل میں گُستاخی کا کوئی عنصر نظر نہیں آیا۔ کیونکہ وہ تحریکِ لبیک کے اُمیدوار کو جوق در جوق ووٹ دینے پہنچے تھے۔
اسی تناظر میں یورپین یونین کی حالیہ قراردار کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کی یورپ میں برآمد کو زک پہنچنا اور FATF کی گرے لسٹ میں پاکستان ؔکا نام شامل رہنا کُچھ کم گھمبیرتا لیے ہوئے نہیں۔ لیکن یہ سب پریشانیاں ایک اور ہیبتناک مسئلے کے سامنے ثانوی ہیں: فی الوقت جو مہیب ترین حقیقی خطرہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جیسے امن کے داعی آفاقی دین کو پاکستانی پیروکاروں میں جبر کی تفسیر کے طور پر فروغ دینے کی تحریکِ لبیک کی کوشِش دم پکڑتی جا رہی ہے۔ یہ پاکستان کے وجود کے لئے ایسا existential خطرہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ تحریکِ لبیک جیسے ابتر اور مُتشدِد افراد پر مُشتمِل گروہ کا مُلک کی قانون سازی اور حکومت میں شراکت داری کا تیزی سے بڑھتا ہوا امکان اس خطرے کے خدوخال کا بغیر کسی شک و شُبے کے بخوبی پتہ دیتا ہے۔ خاکم بدہن تحریکِ لبیک حکومتی انصرام کی اگر زور زبردستی سے دعویدار ہو گئی تو بموجب علؔامہ اقبال کے:
“نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ۔۔۔
تُمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں”
خبر ہو کہ ضیاالحق کے دور میں دین کی اصل روح سے بالکُل برعکس دین کی ’ضیائی‘ توجیہ کو جن فسطائی مقاصِد کے حصول لئےعوام کی ذہن سازی کے لئے استعمال کیا گیا، وہ منافرت کے بیج اب پھل دینے کو تیار ہیں! لیکن اگر سیم اور تھور بڑھانے والے پودے نمو پا بھی جائیں تو یہ ضروری نہیں کہ اُنہیں پنپنے اور جڑیں پھیلانے کی آزادی دی جائے۔ یہ سچ ہے کہ ’سوجھی تدبیر نہ کُچھ رنج و بلا سے پہلے۔۔۔‘ لیکن ہر شر کا جو اللہ تعالی کے بندوں پر اُس کے قائم کردہ دین کے نام پر برپا کیا جائے، اُس کا قلع قمع کرنے کا علاج بھی حکمت اور تدبیر سے کرنے کا حکم ہے کیونکہ: “آسماں پر بھی پہنچنا کوئی دشوار نہیں۔۔۔‘