اسرائیلی فوج کو مشرق وسطیٰ میں کس بنیاد پر برتری حاصل ہے؟

مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر عرب ممالک، امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ خطے میں وسیع تر جنگ کے خدشات کا خاتمہ ہو سکے۔

اسرائیلی فوج کو مشرق وسطیٰ میں کس بنیاد پر برتری حاصل ہے؟

1948 میں اسرائیل کے وجود کے ساتھ ہی امریکہ اور متعدد مغربی مما لک نے فوری طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد اسرائیل کو مستقل طور پر امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی ترسیل جاری رہی۔ اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اب اس نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کی بقا کو کس طرح سے قائم و دائم رکھا جائے۔ لہٰذا اسرائیلی دفاعی مبصرین نے اس سلسلے میں 'پیشگی حملے' یا 'Primitive Strike' کی پالیسی کو اپنایا تاکہ جنگ کو اسرائیل کی سرحدوں سے باہر رکھا جائے۔ دوسری حکمت عملی یہ ترتیب دی گئی کہ ایک مضبوط اور مربوط خفیہ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ تمام اسرائیل مخالف شخصیتوں اور تنظیموں کو بھی مؤثر انٹیلی جنس کے ذریعے عبرت کا نشان بنایا سکے۔ اس خفیہ ایجنسی کا نام موساد رکھا گیا۔

یوں مستند و خفیہ اطلاعات کی بنا پر ہی اسرائیل نے 1967 میں مصر پر پیشگی حملہ کر کے تمام مصری فضائیہ کو زمین پر ہی مکمل تباہ و برباد کر دیا۔ اس کے بعد اسی حکمت عملی کے تحت 1972 میں میونخ اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے قتل عام میں ملوث متعدد اشخاص کو آپریشن 'راتھ آف گاڈ' میں موساد نے دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا۔

اس کے بعد 1976 میں اسرائیلی کمانڈوز نے 'آپریشن تھنڈر بولٹ' کے ذریعے یوگنڈا سے ایئر فرانس کے تمام یہودی یرغمالیوں کو بحفاظت نکال کر پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اسی ' پیشگی حملہ' کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے 1981 میں اسرائیل نے 'آپریشن اوپرا' کے ذریعے عراقی نیوکلیئر ری ایکٹر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جو فرانس کی معاونت سے جلد پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔

2007 میں اسرائیل نے پھر ' پیشگی حملہ' کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے 'آپریشن آرچر ڈ' کے ذریعے شام کا نیوکلیئر پلانٹ مکمل طور پر تباہ کر دیا جو جنوبی کوریا کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔ اسی جارحانہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل نے 2010 میں ایران کے ایٹمی پلانٹ کو بھی نشانہ بنایا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یاد رہے 1973 میں مصر کی جانب سے بھرپور پیشگی حملے سے اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو زبردست نقصان پہنچا تھا۔ تقریباً 2600 سے زائد اسرائیلی فوجی لقمہ اجل بن گئے تھے اور کئی اسرائیلی فوجیوں کو مصری افواج نے یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ سیاسی مبصرین 7 اکتوبر 2023 کو ایک بار پھر حماس کے حملے کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی فضائیہ کا حملہ بھی دفاعی مبصرین کی نظر میں اسرائیل کی ' پیشگی حملہ' پالیسی کا ہی تسلسل ہے۔ اس کے جواب میں ایران نے پہلی بار براہ راست اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرون میزائل اور کروز میزائل داغے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایرانی حملہ وسیع پیمانے پر اسرائیل میں تباہی کا باعث نہیں بن سکا جس کی بڑی وجہ ایران کا خطے کے ممالک کو حملے سے پہلے سے ہی آگاہ کر دینا تھا۔

دوسری بڑی وجہ اسرائیل کا جدید فضائی دفاعی نظام ہے۔ اسی میں ڈیوڈ سلنگ سسٹم، آئرن ڈوم سٹم، پیٹریاٹ اور لیزر بیم سٹم شامل ہیں۔ یہ تمام نظام آنے والے حملے اور ہتھیاروں کے فاصلوں کی خودکار نظام کے تحت پیمائش کر کے انہیں سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی فضائیہ کے پاس جدید ایف 16، ایف 18 اور ایف 35 اسٹیلتھ طیارے بھی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حماس کے اسرائیل پر حملوں سے ایک دفعہ پھر مسئلہ فلسطین پوری دنیا میں اجاگر ہو گیا ہے۔ نیز ابراھام اکارڈ کے بعد عربوں اور اسرائیل کے درمیان مزید ممکنہ قربت اور تعاون کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اب عالمی برادری بھی یہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل نکالنا ناصرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے تمام فلسطینی متحارب گروہوں کے درمیان بھی مکمل اتفاق رائے کا ہونا ضروری ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد کئی فلسطینی متحارب گروپ اس معاہدہ سے ناخوش تھے اور بعد میں فلسطینی متحارب گروپ آپس میں بھی دست و گر یباں رہے۔ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر عرب ممالک، امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ خطے میں وسیع تر جنگ کے خدشات کا خاتمہ ہو سکے اور فریقین کے درمیان پُرامن مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔