ایران اور اسرائیل کی دشمنی کوئی راز نہیں۔ دونوں ریاستیں کم از کم 41 سال سے ایک دوسرے کے خلاف روز کسی نہ کسی محاذ پر برسر پیکار ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج، سیاسی قیادت اور سفارتی ذرائع ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا موقع جانے نہیں دیتے۔ جبکہ دونوں کی خفیہ ایجنسیاں شاید 24 گھنٹے ایک دوسرے کے خلاف مسلسل کارروائیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ افواج کی کارروائیاں ہوں یا پھر سیاستدانوں کی سفارتی سیاست وہ سب سر عام نظر آتی ہیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر شہ سرخیوں کی صورت ہم تک پہنچتی ہیں۔ تاہم کچھ کارروائیوں کی صورت میں کہیں کسی کے قتل، اغوا یا کہیں پراسرار سرگرمی کی خبر سامنے آتی ہے جس کو کرنے والے کا نام پتہ سب کچھ کسی کو معلوم نہیں ہوتا حتی' کہ خود خبر دینے والوں کو بھی نہیں۔ اور ان کارروائیوں کے پیچھے ہوتی ہیں خفیہ ایجنسیاں۔
ایران میں حالیہ برسوں کے دوران پراسرار کارروائیاں اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے انکشافات
حال ہی میں ایران میں ایسی کئی پراسرار کارروائیاں ہوئی ہیں جس پر ہر بار ایران نے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا۔ تاہم اسے سفارتی سیاست کی ایرانی کوشش قرار دیا جاتا رہا۔ تاہم اب حال ہی میں ریٹائر ہونے والے اسرائیلی ایجنسی کے سابق چیف مسٹر کوہن نے ایک تہلکہ انگیز انٹرویو میں ایران پر ہوئے ان حملوں میں سے متعدد کو موساد کے آپریشن قرار دیتے ہوئے ان کی تفصیلات فراہم کردی ہیں۔یوسی کوہن نے ایران کی جوہری دستاویزات کی چوری کے متعلق تفصیلات بتائیں۔ سنہ 2018 میں ایران سے لاکھوں دستاویزات چوری کر اسرائیل بھیج دی گئی تھیں۔اس کے علاوہ اُنھوں نے ایران کے ایک جوہری پلانٹ کی تباہی اور اس کے ایک جوہری سائنسدان کے قتل میں اسرائیلی ہاتھ ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اُنھوں نے اسرائیل کے چینل 12 پر ایک دستاویزی پروگرام میں صحافی ایلانا ڈایان سے بات کی جو جمعرات کی رات کو نشر کیا گیا تھا۔
موساد کو ایران کے خلاف متواتر کارروائیوں میں اتارنے والے یوسی کوہن کون ہیں؟
بی بی سی نے موساد کے چیف کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے سنہ 2015 کے اواخر میں کوہن کو موساد کا سربراہ بنایا تھا۔ اُنھوں نے لندن کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سنہ 1982 میں موساد میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اُنھوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پورے کریئر کے دوران اُن کے پاس 'سینکڑوں' پاسپورٹ رہے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق انٹرویو میں سب سے چشم کشا لمحات وہ تھے جب وہ ایران کی جوہری دستاویزات کی چوری پر بات کر رہے تھے۔ بنیامین نیتن یاہو نے سنہ 2018 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان فائلوں کے بارے میں بتایا تھا۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے ایسا کرنے کی معلومات خفیہ طور پر حاصل کر لی ہیں۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ کوہن نے انٹرویو میں کہا کہ اُنھیں اس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے میں دو سال لگے۔ صحافی ایلانا ڈایا نے کہا کہ اس میں ایرانی سرزمین پر کُل 20 موساد کے ایجنٹ شامل تھے جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی شہری نہیں تھا۔ موساد کے سربراہ نے یہ پورا آپریشن تل ابیب میں ایک کمانڈ سینٹر میں بیٹھ کر دیکھا۔ ایجنٹ ایک گودام میں گھسے اور اُنھیں 30 تجوریاں توڑنی پڑیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اُنھوں نے کہا کہ 'جب سکرین پر دستاویزات کی تصاویر آئیں تو یہ ہم سب کے لیے بہت پرجوش لمحہ تھا۔اُنھوں نے مزید کہا کہ تمام 20 ایجنٹ اس کارروائی میں سلامت رہے اور اب بھی خیریت سے ہیں تاہم کچھ کو ایران سے نکالنا پڑا یران نے کہا تھا کہ جولائی 2020 میں یورینیم افزودگی کے ایک پلانٹ میں سبوتاژ کی ایک کارروائی سے آگ لگی ہے۔ رواں سال اپریل میں نئے ساز و سامان کی رونمائی کے ایک دن بعد ہی حکام نے کہا کہ اسے سبوتاژ کر دیا گیا ہے اور اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔
ایرانی جوہری سائنسدان کی موت: جس سے اسرائیلی عوام کو خطرہ ہو اسکو مٹ جانا چاہیئے
ایران نے اس معاملے پر اسرائیل کو 'جوہری دہشتگردی' کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اُنھوں نے ایران کے اعلیٰ ترین جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے بارے میں بھی بات کی جنھیں گذشتہ نومبر تہران کے باہر ایک سڑک پر قتل کر دیا گیا تھا۔ ایران نے عوامی طور پر اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔ موساد کے سابق سربراہ نے ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی مگر اُنھوں نے کہا کہ یہ سائنسدان 'کئی برس سے' ہدف تھے اور اُن کی سائنسی معلومات سے موساد کو خدشات لاحق تھے۔ اگر کسی شخص میں اسرائیل کے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت ہے تو اس شخص کا وجود مٹنا ضروری ہے۔ مگر اُنھوں نے مزید کہا کہ 'اگر کوئی اپنا شعبہ تبدیل کرنے اور ہمیں مزید نقصان نہ پہنچانے پر تیار ہو' تو اس کی جان بخشی کی جا سکتی ہے۔
موساد کے سابق چیف کے انٹرویو پر ماہرین کے تبصرے
ذرائع ابلاغ پر شائع ہونے والے انٹرویو عالمی ذرائع ابلاغ نے اس انٹرویو کو غیرمعمولی قرار دیا ہے۔ ماہرین کے رائے کے مطابق یہ انٹرویو اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا اور اس سے خطے کی حد تک سٹریٹیجک اہداف کو مد نظر رکھا گیا ہوگا۔
یونیورسٹی آف لاہور کے شعبہ انٹر نیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا سٹڈیز کے پروفیسر سید عاطف امجد علی کے مطابق اس وقت ایران اور مغربی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر برف پگھل رہی ہے اور اسرائیل کو یہ پسند نہیں آرہا جس کی وجہ سے وہ دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ ایران دنیا کے لیئے ایک جوہری خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس شاید دنیا کو اسرائیل کا ایسا چہرہ دیکھانے کے لیئے ایسی خفیہ کہانیاں شاید کم ہوں کیونکہ وہ خود شام، جورڈن اور دیگر ممالک کی سرزمین پر آپریشنز کرتا ہے۔