شیریں مزاری کے اسرائیل سے متعلق انکشاف: کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ پاکستان کے لیئے اب بھی سلگ رہا ہے

شیریں مزاری کے اسرائیل سے متعلق انکشاف: کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ پاکستان کے لیئے اب بھی سلگ رہا ہے
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ ڈالے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ بہت دباؤ آئے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے لیکن پاکستان نےکہاکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی نہیں ہوسکتا اور فلسطین کو انصاف ملنے تک اسرائیل سے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ او آئی سی میں فلسطین اورکشمیر کیلئے آواز نہیں اٹھائی جاتی جبکہ پاکستان نے ماضی میں ہر مسلمان ملک کے انصاف کیلئے آواز اٹھائی، ماضی میں مسلم امہ کی مسلمان ممالک کے انصاف کیلئے کھڑے ہونا روایت رہی ہے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ بھارت اور اسرائیل نے انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں اڑادی ہیں، لگتا ہے امریکا میں صدر جو بائیڈن کے آنے سے خاص تبدیلی نہیں آئے گی، فلسطین سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ اورجو بائیڈن کے درمیان فرق نظر نہیں آرہا۔وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ رمضان شروع ہوا تو اسرائیل نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے اور اذان دینے سے روکا، مسلم ممالک کو کم از کم فلسطین اور کشمیر کیلئے آواز تو اٹھانی چاہیے جبکہ کشمیر کمیٹی کی طرح پاکستان میں فلسطین کمیٹی بھی بنانی چاہیے۔

اسرائیل سے تعلقات کے لیئے دباؤ کی بات نئی نہیں

2005 میں پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی دورہ امریکہ پر ایک لابی میں ’اچانک‘ اسرائیلی وزیر اعظم ایریئل شیرون سے مڈبھیڑ ہو گئی تھی تو پاکستان کی طرف سے تو اسے حادثاتی ملاقات کہا گیا تھا لیکن اسرائیل نے واضح طور پر بیان دیا تھا کہ ہماری کوئی ملاقات حادثاتی طور پر نہیں ہوا کرتی۔

حالیہ بحث نے کہاں سے جنم لیا

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو امریکا کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہے بالخصوص متعدد عرب ممالک کے تل ابیب کے ساتھ امن معاہدوں کے تناظر میں، لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں 'جب تک ایسا تصفیہ نہ ہو جو فلسطین کو مطمئن کرسکے۔ وزیراعظم کا یہ بیان مشرق وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی (یم ای ای) کی ایک رپورٹ میں شائع ہوا۔ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے یہ بیان 'گزشتہ ہفتے مقامی میڈیا' سے بات چیت کرتے ہوئے دیا تھا۔ ویب سائٹ کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ 'ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ غیر معمولی تھا'۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا کسی اور مسلمان ملک کو بھی پاکستان جیسے دباؤ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ 'ایسی چیزیں ہم نہیں کہہ سکتے، ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں'۔یاد رہے کہ حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا ملک متحدہ عرب امارات تھا۔

عرب خطے کی اسرائیل کی جانب کشش اور اسٹیبلشمنٹ نواز اینکرز کی اسرائیل کے حق میں مہم

نومبر 2020 میں واشنگٹن پوسٹ کے سعودیہ میں اسرائیلی وزیر اعظم کی خفیہ آمد اور تعلقات کی بحالی پر بات چیت کی خبروں کے بعد سے پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کے موضوع پر بحث نے ایک بار پھر سے جنم لیا۔  مبشر لقمان ایک اسرائیلی ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے اور وہاں انہوں نے اسرائیل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک عظیم ملک ہے اور اسرائیلی ایک اہم قوم ہے۔ وہ سروائیورز ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھی ایک عظیم ملک ہے اور پاکستانی بہت ہی مضبوط اورعظیم قوم ہیں۔ اس لئے یہ دونوں کے فائدے میں ہے کہ یہ اپنے تعلقات قائم کریں۔ اس پر میزبان کے سوال پر کہ کیایہ سب کرنا پاکستانی حکومت و ریاست کے لئےآسان ہوگا، انکا کہنا تھا کہ یہ ستر سالوں کی دشمنی کی داستان ہے جو کہ پلک جھپکتے میں ختم نہیں ہوگی۔ پاکستانی اسرائیل کے بارے میں سوائے منفی باتوں کے کچھ نہیں جانتے، نہ ہی اسرائیلی پاکستان کے بارے میں کچھ اور جانتے ہیں۔ ہمیں عوام کو شعور دینا ہوگا انہیں اس معاملے کا دوسرا زاویہ دکھانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل جب بھی ہاتھ ملائیں انہیں یہ براہ راست کرنا چاہیے۔ کسی تیسری ریاست کو بیچ میں نہیں پڑنا چاہیے۔

اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اچانک سے حکومت کے حامی صحافی اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حق میں دلائل دینا شروع کر چکے ہیں۔ سینیئر اینکر کامران خان نے سعودیہ کے اس مبینہ خفیہ دورے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کو بھی اپنی اسرائیل پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے جیسا کہ خدام الحرمین شریفین اور ہمارے دیگر عرب بھائیوں کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے۔

مولانا شیرانی کا اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے حق میں بیان

مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ فلسطین خلافت عثمانیہ کی ملکیت تھی اس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے، عربوں کا مقدمہ تھا انہوں نے بھی مان لیا ہے لیکن ہزاروں کلومیٹر دور اس مسئلے پر خوامخواہ کی جذباتی باتیں کی جارہی ہیں جو غیر معقول ہیں۔ مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تنازع عرب کا ہے یا عجم کا؟ اگر دو فریق آپس میں بیٹھ رہے ہیں تو پھر کسی اور کو شرائط رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ’بے مقصد کی خون ریزی اور جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اوربین الاقوامی ہے۔‘

معاملات کہاں جا رہے ہیں؟

اسرائیل سے متعلق عرب پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔ اور اس تبدیلی کے دو سے تین پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ عرب ریاستوں کی آن بان شان اور کرو فر جس ایک اہم نکتے پر ٹکا تھا اس کا اثر ختم ہو رہا ہے۔ وہ نکتہ ہے تیل کے وسیع تر ذخائر۔ اس پر دنیا کا انحصار ختم ہو رہا تھا جسے کرونا کی وبا نے تیز تر کردیا۔ اسرائیل کی خطے میں طاقت و ہیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اسرائیل کے سامنے عرب خطے کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو کہ کھڑی ہو سکے۔ ایسے میں عرب خطے کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ پاکستان کی معاشی و سیاسی ضروریات سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ جڑی ہیں۔ ایسے میں اس دباؤ کا آنا فطرتی ہے اور اس دباؤ کے قبول کیئے جانے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کے ہاتھ سے عرب خطہ نکلتا ہے۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، اسرائیل دشمن پالیسی اور امریکا کی بجائے چین کے ساتھ کھڑے نظر آنے پر پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔  مختصر یہ کہ پاکستان کے لیئے معاملات اب بھی سلگ رہے ہیں۔