نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی منظوری پر وزارت نیشنل فوڈ نے گندم درآمد کی سمری ارسال کی۔ وزارت نیشنل فوڈ نے وزارت خزانہ اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کی اہم دستاویزات کو نظرانداز کیامنظم منصوبے کے تحت مصنوعی طلب پیدا کرکےاضافی گندم درآمد کی گئی جس سے 300 ارب سے زائد نقصان ہوا۔ گندم بحران کی ذمہ دار نگران حکومت ہے۔سرکاری دستاویز نے تمام سکینڈل کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
نجی نیوز چینل جی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے چینل کے ڈائریکٹراور انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ سہیل اقبال نے بتایا کہ گزشتہ سال مصنوعی طلب پیدا کرکے یہ گندم سکینڈل کا سارا کھیل کھیلا گیا۔ سرکاری دستاویزات کے ساتھ اس سکینڈل کی تحقیقات کیں جس میں یہ پتا چلا کہ کس نے اس سکینڈل کے ذریعے مال بنایا، کس نے چھوٹ دی اورکتنے ارب روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان کی 90 فیصد کسان آبادی کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ اس سب کےپیچھے ماجرا یہ ہے کہ اس سکینڈل میں مجموعی طور پر 65 کمپنیاں ہیں جس میں زیادہ تر فلور ملز ہیں، اور 10 سے 15 ٹریڈرز ہیں جنہوں نے گندم درآمد کی ہے۔ ان سب نے مل کر یہ کھیل کھیلا ہے اور گزشتہ سال کوشش کر کے اپنی مرضی کے مطابق وفاقی حکومت سے منظوری لی۔ ان کا ریکارڈ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ ان کمپنیوں نے 36 لاکھ ٹن گندم درآمد کر کے منافع کمایا کیونکہ اس پر کوئی حد نہیں تھی اور کھلی چھوٹ ہونے کی وجہ سے انہوں نے دھڑا دھڑ گندم درآمد کی۔ اس کے باوجود کہ ان کے پاس 45 لاکھ ٹن میٹرک کیری فارورڈ پڑا ہوا تھا۔ اس وقت ڈسٹرکٹ کمشنرز کی جانب سے مہم چلائی گئی تھی کہ 'زیادہ گندم اگائیں'۔ کسانوں کو تحریک دلائی گئی تھی، اضافی زمینوں پر بھی گندم کی کاشت کی گئی اور یہ اندازہ لگایا گیاتھا کہ بمپر کروپ یعنی غیر معمولی طور پر وافر فصل ہو گی۔
سہیل اقبال نے بتایا کہ ٹریڈر کمپنی لوئس ڈرائیفس پاکستان پرائیوٹ لمیٹڈ نے سب سے زیادہ 8 لاکھ 49 ہزار ٹن گندم درآمد کر کے مال بٹورا۔ اس کے بعد یونائیٹڈ ریسورس کارپوریشن نے 5 لاکھ 20 ہزار ٹن گندم درآمد کر کے مال بنایا۔ اس کے بعد سند فیڈ اینڈ الائیڈ کیمیکل پروڈکشن کمپنی نے ایک لاکھ 34 ہزار ٹن گندم درآمد کی۔ یونائیٹڈ ایگرو کیمیکل نے ایک لاکھ 91 ہزار ٹن گندم درآمد کی۔ یونائیٹڈ ایگرو فرٹ کمپنی نے ایک لاکھ 34 ہزار ٹن، طاہرہ انٹرنیشنل کمپنی اور وولکا فوڈ انٹرنیشنل نے 97، 97 ہزار ٹن اور کلاسک فلور ملز نے 71 ہزار ٹن گندم درآمد کی۔ فلور ملز کی تفصیلات دیکھیں تو اسماعیل انڈسٹریز نے 61 ہزار 825 میٹرک ٹن، ایم اے فلور ملز 40 ہزار 35 میٹرک ٹن، گداپ فلور ملز نے 32 ہزار 429 میٹرک ٹن اور اتحاد فلور ملز نے 26 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کی۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام کمپنیوں نے اجتماعی کوشش کی کیونکہ ان کو ایک ایسا ماحول چاہیے تھا جو انہیں پی ڈی ایم حکومت میں نہیں مل سکا۔ جب شہباز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور ای سی سی کی سربراہی کرتے تھے۔ ان کا تجربہ ہے اور ان کو دھوکا دینا مشکل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جب 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت میں 2 بڑے چینی اور گندم سکینڈل سامنے آئےتھے۔ دونوں معاملات کی تفصیلی تحقیقات کی گئی تھیں۔ بدقسمتی سے ایف آئی اے کی وہ رپورٹ آج بھی پینڈنگ پڑی ہیں۔ اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یہ وہی کمپنیاں ہیں جو اس گیم کا حصہ تھیں۔ اس وقت بھی تحقیقات کر کے کچھ اقدامات لینے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی لیکن نہیں لیے گئے۔ اسکے بعد وہ رپورٹ دب گئی۔ سال 2020-21 میں پھر گندم کی قلد ہوئی، طلب بڑھ رہی تھی اور سمگلنگ بھی تھی ۔ تب یہ کمپنیاں 3 سے 4 لاکھ ٹن درآمد کررہی تھیں۔ سیلاب کے باوجود وافر فصل ہو ری تھی لیکن یہ لوگ سٹریٹیجک ریزرو کے نام پر 3 سے 4 لاکھ ٹن درآمد کررہے تھے۔ لیکن گزشتہ سال ملک میں 28 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی۔ڈیڑھ ملین ٹن سے زیادہ پاسکو کے پاس موجود تھی۔ اس کے باوجود سٹریٹیجک ریزرو ڈیویلپ کرنے کے لیے مصنوعی طلب پیدا کی گئی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سرکاری دستاویز کے مطابق گندم بحران کی ذمہ دار نگران حکومت ہے۔ جولائی 2023 میں ای سی سی کے سامنے سمری پیش کی گئی۔ جن نگران وزیراعظم نے منظوری دی تو وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی میں ان کمپنیوں کے رابطے دوبارہ ایکٹو ہوئے۔ وہاں سے ڈاکٹر شمشاد اختر کی سربراہی میں چل رہی وزارت خزانہ میں ان کے کنکشنز تھے جہاں سے معاملات اوکے کروائے۔ فنانس مسٹری نے سارے معاملے میں وہ کردار ادا کیا جو اس کی ڈومین ہی نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے نیشنل فوڈ سکیورٹی کو یہ سارا سکینڈل ڈیویلپ کرنے کا موقع ملا۔ جب اسحاق ڈار نے سمری کو مسترد کر دیا تو یہ لوگ خاموشی سے بیٹھ گئے اور جیسے ہی پی ڈی ایم حکومت ختم ہوئی اور نگران سیٹ اپ آیا تو انہوں نے دوبارہ ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، سمری تیار ہوئی، مشاورت کے لیے فنانس منسٹری کے پاس گئی۔ ان کے پاس کمنٹس کے لیے 2 پروپوزل آئے تھے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان بھی درآمد کرے۔ فنانس منسٹر نے 3 پوائنٹس پر اپنے کمنٹس دیے؛ ٹی سی پی کو منع کریں۔ اس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دیں۔ شمشاد اختر وہاں موجود تھیں اور اس وقت زرمبادلہ کے ذخائز پر پریشر تھا۔ ایل سیز نہیں کھل رہی تھیں۔ اس کے باوجود حوصلہ افزائی کی گئی اور ایل سیز کو کھولا گیا۔ وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبے کو مقررہ حد کی بجائےکھلی چھوٹ دی گئی جبکہ کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی بھی چھوٹ دی گئی۔ سرکاری دستاویز کے مطابق گندم کے ٹریڈرز نے اربوں روپے کا کھیل کھیلا۔
فنانس منسٹری نے کہا کہ ٹی سی پی پر پابندی لگائیں۔پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دیں اور ان کو کھلی چوٹ دے دیں کہ وہ جتنی چاہیں اتنی مقدار میں درآمد کر سکیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر نیشنل فوڈ سکیورٹی نے سمری دوبارہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے سامنے پیش کی جس کی منظوری دیدی گئی۔ جس کی توثیق اس وقت کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی کابینہ نے کی۔ اسکے بعد یہ کھیل ایسا شروع ہوا کہ ٹائم لائن گزرنے کے باوجود بھی پرسوں رات ایک بحری جہاز 48 ہزار ٹن گندم لے کر پہنچا جسے آف لوڈ کرنے کی کوشش کی گئی جس پر رانا تنویر نے ایکشن لیا۔
2 مئی کو وزیر اعظم شہباز شریف نے گندم بحران پر نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی محمد آصف کو عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
اس سلسلے میں کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
ڈاکٹر محمد فخر عالم عرفان کو نیا سیکریٹری قومی غذائی تحفظ اور تحقیق تعینات کردیا گیا ہے۔
بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف نے نگران حکومت میں گندم کی درآمد کی ہر لحاظ سے شفاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔
اس حوالے سے وزیر ااعظم شہباز شریف نے گندم درآمد سکینڈل کی انکوائری کمیٹی کے سربراہ سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے شفاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے دستیاب ریکارڈ اور دستاویزات کو سامنے رکھ کر سفارشات مرتب کرنے اور سیکریٹری کابینہ کو پیر تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ذمہ داروں کا واضع تعین کریں۔ کوئی لگی لپٹی مت رکھیں۔