ڈرامہ سیریل ’’سیاست دان‘‘

ڈرامہ سیریل ’’سیاست دان‘‘
میں اکثر سوچتا تھا کہ ایک ڈرامہ سیریل لکھوں۔ اب ادیب جس طرح ڈرامہ نگاری کرتے ہیں وہ تو میرے بس سے باہر تھا کیوں کہ میرے پاس ادب کے حوالے سے زیادہ جانکاری نہیں ہے پھر میں نے سوچا کہ ایک ڈرامہ سیریل بناتا ہوں اور اس ڈرامے کی کہانی کے لئے میں زندہ لوگوں کو کردار دوں گا۔

 میں فرضی کردار نہیں لکھوں گا۔ پھر یہ مشکل آئی کہ میں ڈرامہ سیریل کس طرح کے لوگوں پہ بناؤں۔ کسانوں پہ ڈرامہ بنانے کا ارادہ کیا، کسانوں کو سامنے بٹھایا اور ان کو اداکاری کرنے کو کہا۔ کسانوں نے اداکاری شروع کی۔

ڈرامہ کچھ یوں تھا کہ پانی کم ہے، فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ کھاد کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ مزدوری وقت پہ نہیں ملتی اور ہم مالی طور پر خراب ہو رہے ہیں۔ کسانوں کا ڈرامہ ایک ہی قسط چلا ہو گا کہ آگے کی کہانی ختم ہوئی۔ میں نے آرمی پہ ایک اچھا ڈرامہ لکھنے کا ارادہ کیا۔ آرمی والوں کی کہانی یوں بنی کہ جوانوں کو بچپن سے ملک کے لیے قربان ہونے کا شوق ہے، وہ محنت کر کے آرمی میں چلے جاتے ہیں۔ ادھر کافی مشکل ٹریننگ کرتے ہیں اور دشمن کے خلاف لڑتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم چین کی نیند سوتے ہیں اور وہ اپنی جانوں کی قربانی دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ آرمی کے جوانوں کی کہانی بس یہی تھی ان میں قربانی کا جذبہ ہونا اور ملک کے لیے قربان ہونا۔

میں نے پھر ڈاکٹروں کو کردار دیا، ڈاکٹروں کی کہانی شروع ہوئی کہ بچپن سے ہی بہت محنت کرتے ہیں، ہر سال کلاس میں اول نمبر پر آتے ہیں۔ کافی مشکل امتحانات پاس کر کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔ پانچ سال میڈیکل کالج میں مشکل پڑھائی کرتے ہیں، پھر مریضوں اور ہسپتال کی زندگی۔ ڈاکٹروں کی مشکل اور مصروف زندگی دیکھنے کو ملی۔ ڈاکٹروں کی کہانی کچھ قسطیں چلی اور پھر ختم ہوئی۔

 ایک بار وکیلوں کو ڈرامہ میں کام کرنے کو کہا۔ ان بے چاروں کی بھی زندگی جرم، سزا، عدالتوں کی سماعت اور لوگوں کی لڑائی جھگڑوں کے فیصلوں کی کہانی تھی۔ یہ کہانی بھی جلدی ختم ہوئی۔

تاجروں سے میں نے مدد کرنے کو کہا۔ ان کی کہانی یوں ہوئی کہ ٹیکس زیادہ ہے آمدن کم ہے۔ لوگ نہیں آتے۔ سامان دکانوں میں خراب ہو جاتا ہے لیکن لینے والا کوئی نہیں۔ یہ کہانی بھی لمبی نہ چل سکی اور میں نے اپنا ڈرامہ سیریل ختم کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پھر کچھ دنوں بعد ایک دوست نے کہا کہ میں آپ کا کام کرتا ہوں۔

مجھے ایسے لوگوں سے ملوایا کہ وہ سارے کردار ادا کر سکتے تھے۔ یہ لوگ واقعی بہترین اداکار تھے۔ انہوں نے میری پریشانی کم کر دی۔ وہ امیر ہو کر غربت کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ گناہ گار ہو کر ایسا نیک کردار ادا کر سکتے تھے کہ بڑے بڑے نیک لوگوں کو رشک آتا تھا۔ وہ لوگوں کو ایسے خواب دکھاتے تھے کہ لوگ ان کے لیے ماں باپ کو بھول جاتے تھے۔ وہ قاتل کے ساتھی ہو کر مقتول کے جنازے میں شرکت کرتے تھے۔ وہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست ثابت کرنا آرام سے کرتے تھے۔ وہ عبادت گاہ کے منبر پر بھی تقریر کرتے تھے اور منبر سے اتر کر عبادتوں کی توہین بھی کر سکتے تھے۔ وہ لوگوں کو امن کی باتیں بھی کرتے تھے اور تعصب کے نام پہ قتل بھی کرتے تھے۔ وہ غریبوں کا حق دبا کر اسی مال سے مسکینوں کی داد رسی بھی کرتے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی بلند کرتے تھے اور ظالم کو شاباش بھی دیتے تھے۔ وہ زنا بالجبر کے خلاف بھی بولتے تھے اور بہت ساری بچیوں کے عزت تار تار کرنے والوں کے ساتھ بھی نظر آتے تھے۔

سیاستدان قاتلوں کو بھی کچھ نہیں کہتے تھے اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے کا کردار بھی اچھی طرح کر سکتے تھے۔ وہ باکمال لوگ تھے میرے بس میں ہوتا تو ان کو نوبل انعام دیتا۔ میرا یہ ڈرامہ کافی قسطوں پر محیط رہا یہ لوگ کہانی کے سب کردار نباہ سکتے تھے۔ یہ ڈرامہ سیریل کافی قسطوں پہ محیط رہا۔ بہت مشکل سے یہ کہانی ختم کرنے کی کوشش کی۔ لوگ بھی اسی ڈرامہ سیریل کو بہت پسند کرتے ہیں۔ شوق سے لوگ دیکھتے ہیں۔ میں نے اس ڈرامے کا نام سیاست دان رکھ دیا۔ اس ڈرامہ سیریل کو کم از کم آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ پتہ نہیں ابھی تک کیوں نہیں ملا۔

مصنف آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں