آج کل پنجاب کے ایک لیڈر کا تذکرہ ہے جس کی تقریر نے ہر طرف آگ لگا دی ہے اور اسے انقلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ لیڈر نواز شریف ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق انکی گوجرانوالہ جلسے میں کی گئی تقریر کے اثرات پاکستان کی سیاست سے تاحال چھٹ نہیں سکے ہیں۔
تاہم ملک کے معروف صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ وہ اس امر سے اتفاق نہیں کرتے کہ نواز شریف پنجاب کے پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے یہ کیا۔ وہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
اپنے تازہ ترین کالم میں حامد میر لکھتے ہیں کہ عمران خان اور اُن کے وزراء نواز شریف کی تقریر کی مسلسل مذمت کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھونچال آ گیا ہو، نواز شریف کے کچھ متوالوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پنجاب کے کسی لیڈر نے ایک حاضر سروس آرمی چیف پر اِس طرح کھل کر تنقید کی ہے، میں اُن متوالوں سے معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔
نواز شریف سے پہلے بھی ایک لیڈر نے اِس سے بڑھ چڑھ کر ایک حاضر سروس آرمی چیف پر تنقید کی تھی، یہ لیڈر بھی نواز شریف کی طرح لاہور میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا، اُس نے اپنی پارٹی بھی لاہور میں بنائی اور پہلی انتخابی کامیابی پنجاب کے شہر میانوالی سے حاصل کی۔
اُس لیڈر کا نام عمران خان ہے، نواز شریف نے جو کچھ16؍اکتوبر کی شب کہا، وہ سب کچھ عمران خان 2002 سے 2013 کے درمیان ایک دفعہ نہیں، کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں۔
گوجرانوالہ کے جلسے سے اگلے دن وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد مسلم لیگ ن پر پابندی لگنی چاہیے، شیخ صاحب یاد رکھیں کہ عدالتوں کے ذریعے مسلم لیگ ن پر پابندی لگوانے کی کوشش کی گئی تو پھر اُن تقریروں کا ذکر بھی آئے گا جو عمران خان نے نواز شریف کے لب و لہجے میں کیں۔
تقریروں کو چھوڑیے، عمران خان کی بائیو گرافی کو دیکھ لیں جو 2011ءمیں شائع ہوئی تھی، اُس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کے صفحہ 222پر عمران خان نے پاکستان آرمی کے بارے میں جو لکھا ہے، میں اُس کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ آج کل پاکستان آرمی کے جوان اور افسران ہر دوسرے دن اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔