جون پر تنقید کریں، تنقید برائے تنقید نہیں

جون پر تنقید کریں، تنقید برائے تنقید نہیں
ادارتی نوٹ: زیرِ نظر مضمون ایکسپریس ٹریبون میں آج چھپنے والے ایک انگریزی مضمون Joun Elia - popular but not great کے رد میں لکھا گیا ہے۔ کچھ مواقع پر مصنف کے لہجے میں تلخی بھی در آتی ہے لیکن اس تلخی کو مصنف کے جذبات کی عکاسی سمجھتے ہوئے معمولی قطع و برید پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ تحریر کو چھاپنے کا فیصلہ اس نیت سے کیا گیا ہے کہ جون ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا نام ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا متنازع نام بھی ہے۔ ان پر بحث ہونی چاہیے۔ نیا دور کی جانب سے صارفین کو دعوتِ عام ہے کہ اس موضوع پر اپنی آراء ہمیں لکھ کر بھیجیے، بخوشی شائع کی جائیں گی۔

تنقید برائے تنقید کا عالم تو یہ ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ شاعر اور ادیب پر کوئی نظریاتی لیبل نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ادب اچھا ہوتا ہے یا بُرا، یا انہی کے مطابق اس سوچ کو مزید محدود کر دیں تو ادب یا غیر ادب۔ اب بھلا اس دم بخود شرط میں جون جانی سانس بھی کیسے لے سکتے تھے؟



وہ شخص جو تاریخ کو بااقتدار انسان دشمنوں کا سیاہ اعمال نامہ قرار دیتا ہے اس کی تاریخ سے فکری وابستگی سمیت وجودیت کے انتہائی اہم مسائل جیسا کہ لاوجودیت، بےمعنویت، ساخت، بناوٹ، جمالیات، ان سب کی جوڑ توڑ، کچھ الجھی ہوئی، کچھ انتہائی سادہ باتیں کہ 'ہمیں تو اب خود اپنے ہونے پر یقین نہیں آتا، کیا ہم واقعی ہیں؟ آپ ہونگے مگر میں تو شاید نہیں ہوں۔ جو اپنی سچی حالتوں کے ساتھ نہیں پایا جاتا وہ نہیں ہے، سو میں نہیں ہوں'۔

کیا یہ سب اس لئے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ان خیالات میں ایک بے نتیجی سی پائی جاتی ہے، یا وزن برابر کرنے میں ناکام ہیں؟ بے نتیجی تو بذاتِ خود ایک فلسفے کا مسئلہ ہے، اس کو انا کا مسئلہ کیسے سمجھ لیا گیا؟ اور یہ لکیر کون کھینچ رہا ہے کہ ادب معاشرت سے الگ کوئی شے ہے؟ اگر ہے تو اس کی اپنی ساخت کیا ہے، کیا معاشرت واقعی میں اس قدر غیر اہم ہے کہ اس کے بغیر ادب کھڑا ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو جون کیا، ادب کی ساری تاریخ ایک خاموش کتاب کی سی نظر آتی ہے۔ ایکسپریس ٹریبون کے لکھاری رافع محمود یہ کیسے بھول گئے کہ ’جانی‘ عام شخص نہیں ہے؟ وہ جو دے گیا ہے، دراصل اسی کا چرچہ ہے۔ آپ کی مقبولیت اتنی نہ ہوئی تو مطلب ہم بنیاد ہی اکھاڑ پھینکیں۔ ایسا کیوں؟ احمد جاوید نامی دانشور کو جون پر تنقید سے پہلے تک کم از کم میں تو نہیں جانتا تھا، تو اس خطے کے اتنے اہم نام پر تنقید کی بنیاد بھی تو پائی جائے۔ کیا جون واقعی میں بڑے ادیب نہ تھے؟



گُرو رجنیش (اوشو) جب لکھتا ہے تو پڑھنے والے کو یہ غرض بھی ستانا چاہیے کہ جو لکھا گیا ہے، وہ اس کو کتنا متاثر کر پا رہا ہے۔ اوشو کی لکھی عورت پڑھنے کا فائدہ ہی کیا اگر وہ آپ میں گھُل نہ جائے اور متاثر کیے بغیر رہ جائے؟

عورت کے موضوع پر میں نے اس سے پہلے جب بھی کچھ پڑھا تو اس کے ہونٹوں کی لالی اور اُبھرے اُبھرے جسم کے علاوہ چنداں ہی بہتر زاویے پڑھنے کو ملے۔ ہاں اوشو نے اپنی کتاب میں فلسفے کے وہ تار بھی ہلائے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ادیب، لکھاری سے پہلے زندگی اور فلسفے کا بہترین مشاہدہ کار بھی ہے۔

فلسفے کا اور ادب کا بہت پرانا رشتہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ فلسفے کے مشاہدے کے بعد ہی انسان قلم کی باریکیاں طے کر سکتا ہے۔ کم از کم ایسے لکھنے والوں کے پڑھنے والے بھی اس دانست کے ہوں تو لکھنے پڑھنے والوں کے بیچ ایک خاص علمی رشتہ وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد ایسا تجربہ تو خیر ہرگز نہ ہو کہ ایک صحافی دو چار دانشوروں کے انٹرویو کر کے ’جانی‘ پر ایک نکتہ چین آرٹیکل چھاپ دے کہ جون ایسا نہیں ایسا تھا، گذارش ہے کہ پہلے جون کو سمجھ تو لیجئے جناب۔ آپ نے جون کو سمجھا ہی کب ہے؟ آپ خود کو ہی سمجھنا بھول گئے۔



کون کہتا ہے کہ حبیب جالب بڑے شاعر نہ تھے۔ یہ بے وزن باتیں آخر کس جانب سے آ رہی ہیں؟ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ عام دلوں کی آواز تھے، ان کو وہ نام وہ مقام ملا کہ شاید دراصل دوسرے ادیب شاعروں کو کم کم ہی ملا ہو۔ تو گویا وہ اس وجہ سے چھوٹے شاعر ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ وزن نہیں ہوا کرتا تھا جو دراصل کلاسیکی شعروشاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے؟ ویسے جتنا اس بات کو بھی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اتنا کچھ تھا نہیں، دراصل اس کو دکانداری کے مسائل کہہ لیں یا پروفیشنل جیلسی نامی کوئی شے، یا کچھ بھی جس سے آپ کو تسلی ہوتی ہے، ویسے دستور اور ظلمت کو ضیا سوچ اور وزن کے حساب سے کیا کم بھاری ہیں؟

فیض صاحب سے بھی کچھ لوگوں کی یہی لڑائی تھی کہ وہ بذات خود اچھے انسان نہیں ہیں اور شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی دوسری عورتوں سے عشق معاشقے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سب کا میرے فیض سے ان کے اشتراکی خیالات کی وجہ سے متاثر ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اب ادب کے لئے ضیا والا فارمولا رکھ لیا جائے تو ادب مسلمان کہلائے گا۔ آخر اس میں بھی کسی کو کیا تکلیف ہے کہ ادب کا سہارا لیتے ہوئے جون ناف کے بالوں کے حوالے سے نکتہ اٹھا دیتا ہے۔ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون میں جس طرح کے رویے کا مظاہرہ کیا گیا، مجھے یہ سمجھنے میں چنداں مشکل نہیں ہوئی کہ دراصل تکلیف اور شکایت کا اصل محل وقوع کیا ہے۔

میرے خیال سے اختلاف تو ایک بہت خوبصورت چیز کا نام ہے۔ اس کو محاذ آرائی میں تبدیل کر دینا ایک غیر پیشہ وارانہ اپروچ ہے۔ آج جون نہیں ہیں، مگر جون ہر جگہ ہیں۔ ان پر تنقید آپ کا حق ہے مگر تنقید برائے تنقید تحریر کو بدمزا کر دیتی ہے۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔