پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہےکہ آخرکار’’مسٹرکلین‘‘ کرپٹ اور بےایمان نوسرباز سیاستدان کے طور پر بےنقاب ہوگیا ہے، اس کو صادق اور امین قرار دینے والا پہلے ہی اعترافِ جرم کرچکا ہے، اب صرف قانون کا انصاف باقی ہے۔
انہوں نے لندن میں ٹویٹر پر پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس سے متعلق الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا کہ آخرکار’’مسٹرکلین‘‘ کرپٹ اور بےایمان نوسرباز سیاستدان کے طور پر بےنقاب ہو چکا ہے، مجھے حکومت سے باہر کرنے اور اس کو صادق اور امین قرار دینے والا پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف کرچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کی طرف سے انصاف ہوچکا ہے اب قانون کا انصاف ہوتے ہوئے دیکھنا باقی ہے۔
https://twitter.com/NawazSharifMNS/status/1478406714496061442
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی پی ٹی آئی کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس سے متعلق رپورٹ پر ٹویٹر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ دوسروں پر چور چور کے الزام لگانے والے کی جب اپنی تلاشی لی گئی تو اس کا بال بال چوری میں ڈوبا نکلا۔
دوسروں سے فنڈ کے نام پر مال اینٹھنا، پھر اس کو عیاشی کے لیے استعمال کرنا اور چوری چھپانے کے جھوٹ پہ جھوٹ بولنا۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں عمران خان جیسا کرپٹ، جھوٹا اور سازشی حکمران آیا؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ناصرف چوری کی اور چھپائی بلکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور انکی محنت اور خون پسینے کی کمائی پر عیش کی۔ پے درپے انکشافات، لیکس اور ثبوتوں کےانبار عمران سمیت پوری پی ٹی آئی کو فارغ کرنے کے لیے کافی ہیں،اتنے سنگین فراڈ اور اسکینڈل تاریخ میں کسی جماعت کے نہیں آئے۔
مریم نواز نے کہا کہ انصاف کے نام پر پاکستان کو دھوکہ دینے والے عمران خان کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ کون جانتا تھا ثاقب نثار کے ’’صادق و امین‘‘ کا چہرہ اتنا بھیانک نکلے گا! اس بھیانک چہرے پر پردہ ڈالے رکھنے پر الیکشن کمشن کے سابق عہدیدار بھی جوابدہ ہیں۔ واضح رہے جیونیوز کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ میں شامل کیش رسیدیں اور بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں، اسٹیٹ بینک کی بینک اسٹیٹمنٹ سے ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے، لیکن اس رقم میں سے الیکشن کمیشن میں 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔
تین بینکوں نے2008 تا 2012 تک کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں، جبکہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرمز نے آڈٹ رپورٹ میں کوئی تاریخ درج نہیں کی اور پانچ سال میں آڈٹ رپورٹس کا ایک ہی ٹیکسٹ جاری کیا،تاریخ کا درج نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کیخلاف ہے۔