ہم نے ڈاکٹر سید علی واصف سے گفتگو کی جو پروفیسر ہارون احمد کے قائم کردہ ادارے سائیکو سوشل سینٹر کے سربراہ اور پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ کے صدر ہیں۔ ایک دردمند دل اور فعال شخصیت کے مالک واصف طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ مصور، مجسمہ گر، شاعر اور ادیب بھی ہیں۔
سوال: پاکستان میں خودکشی کے اعداد و شمار کیا ہیں؟
واصف: قانونی قدغن، رجعت پسند سوچ اور سماجی رویوں کے باعث ہمارے اعداد و شمار بہت مربوط نہیں لیکن ہم ڈیٹا کے ایک کوہ ہمالیہ پر ضرور بیٹھے ہیں جو دراصل آتش فشاں ہے۔ مختلف تحقیق بین الاقوامی طبی مجلوں کی زینت بن چکی ہیں۔ کوویڈ وبا کے خاتمے پر سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے ڈاؤ، جناح، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی، ایدھی فاؤنڈیشن، ہینڈز چیرٹی اور پاکستان کے سب سے بڑے نفسیاتی اسپتال کواسجی انسٹی ٹیوٹ گدو بندر سمیت دس بڑے اداروں کے اشتراک سے عوامی انٹرویوز منعقد کئے جن میں قریباً ڈیڑھ ہزار افراد سے نفسیاتی سوالنامے پُر کرائے گئے۔ ان سوالناموں کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ 52 فیصد افراد انگزائٹی ڈس آرڈر جبکہ 44 فیصد ڈپریشن کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان 44 فیصد میں سے ایک چوتھائی کو خودکشی کرنے کے غیر فاعل (passive) خیالات آ رہے تھے۔ گویا 10 فیصد آبادی جینے کی امنگ کھو رہی ہے۔
اس سٹڈی کے بعد ایک دوسری تحقیق ننگر پارکر میں کی گئی جو سندھ میں خودکشیوں کے گڑھ کی شہرت رکھتا ہے۔ سات اداروں کے تعاون سے ہوئی اس ریسرچ میں خودکشی میں جاں بحق ہو جانے والوں کے اہل خانہ، دوستوں اور واقف کاروں سے ملاقات کر کے نفسیاتی پوسٹ مارٹم کیا گیا تاکہ سمجھا جا سکے کہ لوگ زندگی سے کیوں روٹھ رہے ہیں۔
حال ہی میں سیلاب زدگان کی عارضی بستی میں نفسیاتی کلینک قائم کر کے ذہنی صحت کا جائزہ لیا گیا۔ اس طرح کے نفسیاتی کیمپوں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مرگی، ذہنی پس ماندگی، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس، آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی اور پیدائش کے وقت دماغی صدمہ (سیریبرل پالسی) بھی بہت عام ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ زچگی میں دیکھ بھال کا کوئی منظم انتظام نہیں۔ سینکڑوں میل تک کوئی تربیت یافتہ آبسٹیٹریشن نہیں۔ کسی کو دھیان نہیں کہ یہ ذہنی طور پر معذور افراد جوان ہو کر ملک کے لئے کتنا بڑا مالی اور سماجی بوجھ بننے والے ہیں۔
سوال: یہ بہت تشویش ناک اعداد و شمار ہیں اور عالمی اوسط سے زیادہ دماغی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے ان تحقیقات کے بعد عملی طور پر کیا اقدامات کئے؟
واصف: اس چشم کشا تحقیق کا پس منظر سندھ میں پچھلے دس سالوں میں خودکشی کا ڈیٹا تھا۔ سٹڈی کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت ہندسوں اور فیصد کی شکل میں عیاں ہو گئی جسے اب جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ہم اسے طبی تعلیم اور ہیلتھ پالیسی کی ترجیحات متعین کرنے میں ریفرنس بنا سکتے ہیں۔ اس تحقیق کے بعد صوبائی وزارت صحت نے تعلقے کی سطح تک ڈاکٹروں کو ڈپریشن اور انگزائٹی کی تشخیص اور علاج کرنے کی تربیت دی۔ کچھ بنیادی ادویات مہیا کر دی گئیں جن سے علاج شروع کرایا جا سکتا ہے۔ وہ مریض جن میں چھ ہفتے تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئیں انہیں بڑے اسپتالوں میں ریفر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ایک دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ 10 فیصد مریض پہلے ہی نفسیاتی امداد حاصل کر رہے ہیں۔ یعنی عوامی سطح پر اتنی آگاہی موجود ہے۔
سوال: کیا پاکستان میں خودکشی کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے؟
واصف: بلاشبہ زندگی سے اکتا جانے والوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج سے تیس پینتیس سال پہلے کبھی کبھار ایک آدھ خبر شائع ہوتی تھی لیکن اب کوئی دن جاتا ہے جب اردو اور سندھی کے علاقائی اخبارات میں چھ سات اموات کی رپورٹ نہ موجود ہو۔ اگر ہم اسپتالوں کی ایمرجنسی میں فرائض انجام دیتے سی ایم او سے دریافت کریں تو وہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ روزانہ اوور ڈوز اور خود کو زخمی کرنے کے بہت سے کیسز آتے ہیں جن میں سے کچھ کو آئی سی یو بھیج دیا جاتا ہے۔ ان میں سے جو بہتر حال میں ہوں انہیں میڈیکو لیگل کے جھنجھٹ سے بچانے کے لئے پرائیوٹ اسپتال جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ میں جس پرائیویٹ اسپتال میں کام کرتا ہوں وہاں دن بھر میں دس سے بارہ کیسز آ جاتے ہیں۔
سوال: کیا خودکشی کے انداز میں بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟
واصف: جب ہم طالب علم تھے تو عموماً نیلا تھوتا، کیڑے مار دوا، ڈی ڈی ٹی وغیرہ کھانے کے مریض آیا کرتے تھے، جیسے جیسے آٹومیٹک ہتھیار عام ہوتے گئے انہیں اپنی جان لینے میں استعمال کیا جانے لگا۔ چاقو، خنجر، پستول، کلاشنکوف وغیرہ یہ سب کافی تکلیف دہ اور متشدد طریقے ہیں۔ سندھ میں پہلے اجرک چادر کے سائز کی ہوتی تھی۔ اب شاید مہنگائی کے سبب یہ سکڑ کر دوپٹے جتنی ہو گئی ہے۔ لوگ اس کا پھندا بنا کر درخت کے ساتھ جھول جاتے ہیں۔ گھر والوں کو ان کی لاشیں جنگل میں ملتی ہیں۔
ایک اور نمایاں تبدیلی اجتماعی واقعات کی ہے جن میں ایک شخص پہلے اپنے گھر والوں کی جان لیتا ہے، پھر خود کو ختم کرتا ہے۔ اگر خود ناکام ہو جائے تو دہرا المیہ ہوتا ہے۔ ماں اپنے بچوں کے ساتھ نہر، دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔
سوال: پاکستان کا قانون خودکشی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ پولیس مریض اور اہل خانہ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟
واصف: ایک بہت طویل عرصے تک پاکستان پینل کوڈ 325 کے تحت خودکشی ایک جرم تھا۔ مریض اگر بچ جاتا تو اس کے لئے ایک سال جیل اور پچاس ہزار جرمانہ تھا۔ مر جانے والے مریض کا خاندان تھانہ کچہری میں دھکے کھاتا رہتا۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد جب صحت ایک صوبائی سبجیکٹ بن گیا تو سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ کی سربراہی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ سندھ پہلا صوبہ تھا جہاں کولونیل دور کی یادگار پی پی سی 325 کو ختم کیا گیا اور سارے ملک کے لئے بھی یہی سفارش کی گئی۔ لیکن ہمارے اصحاب جبہ و دستار کا محبوب مشغلہ ہی کچلے ہوئے انسانوں کا گلا گھونٹ دینا ہے۔ وہ اس طبی معاملے کو خلافِ شرع قرار دے کر اسلامی نظریاتی کونسل لے گئے۔ منہ سے آگ اگلتے ان واعظانِ بے حس کی خواہش ہے کہ ذہنی مریض جیلوں میں مزید ذلیل ہوں، ماریں کھائیں تاکہ ان میں عزتِ نفس اور زندگی کی بچی کھچی رمق بھی مسل دی جائے۔ ان کا محدود شعور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایسے مریض کو ذہنی علاج گاہوں میں رکھ کر زندگی کی طرف لوٹایا جا سکتا ہے۔ پچھلے دسمبر میں علمائے کرام کے سخت احتجاج کے باوجود یہ قانون ختم کیا گیا لیکن ابھی تک اس کے اثرات اسپتالوں کی ایمرجنسی تک نہیں پہنچے جہاں پولیس والے ان کیسوں کو پکڑنے کے لئے تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ خاندان والوں کو شدید اذیت اور بلیک میلنگ سے گزارا جاتا ہے۔
سوال: کیا خودکشی صرف امیر لوگ کرتے ہیں؟
واصف: ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن میڈیا صرف ارب پتی اور سیلیبرٹی افراد یا ان کے اہل خانہ کی خبروں کو فوقیت دیتا ہے اور ان کا انسانی پہلو اجاگر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ متشدد موت جیسے پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے یا عدالت کی چھت سے کود کر جان دینے والے سنسنی خیز واقعات کو صفحہ اول پر جگہ ملتی ہے۔ خودکشی کو گلیمرائز یا گلوریفائی نہیں کرنا چاہئیے، یہ ایک المناک سانحہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات بہت احتیاط سے کام کرتے ہیں۔ پچھلے صفحات پر آنے والی خودکشیوں کی خبروں سے علم ہوتا ہے کہ ملک کے ایک کونے میں واقع چترال اور دوسری سرحد پر واقع تھرپارکر خودکشیوں کے صدر مقام بن گئے ہیں۔ دگرگوں ہوتے معاشی حالات نے لوگوں سے جینے کی امنگ چھین لی ہے۔ بجلی کے بل، اشیائے ضرورت، بچوں کی فیسیں اور ادویات کی قیمتیں مڈل کلاس کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ بے کاری، بے روزگاری، بے سمتی عام ہیں۔ ایک انجانا خوف مسلسل سروں پر سوار ہے۔ لوگوں کے ایام زیست تنگ ہو گئے ہیں۔ موٹیویشنل سپیکر کے نام پر جدید اقدار سے لاعلم، تنگ نظر، جنونی اداکار چھا گئے ہیں۔ اصل امنگ، موٹیویشن یا ولولہ ختم ہو گیا ہے۔
سوال: ذہنی امراض کے بارے میں پاکستانی معاشرے کا رویہ کیا ہے؟
واصف: کچھ نہ کچھ آگہی آ رہی ہے لیکن مہذب اقوام سے ہم صدیوں پیچھے ہیں۔ عام لوگوں کی بات کیا کریں، ہمارے ڈاکٹر احباب کی اکثریت بھی روایتی سوچ سے جان نہیں چھڑا سکی۔ نفسیاتی امراض کو دامن پر لگا ایک ایسا داغ سمجھا جاتا ہے جو کسی کو نظر آ جائے تو ناک کٹ جائے گی۔ نفسیاتی مریض کو کوئی اون نہیں کرتا۔ لوگوں سے فیملی ہسٹری پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ آج تک کوئی نفسیاتی مریض نہیں تھا۔ گھما پھرا کر پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا کبھی کسی پر جن چڑھا، چڑیل چمٹی، سایہ یا سفلی علم ہوا جس کے لئے آپ نے کسی بابا، پیر یا مولوی کی رہنمائی حاصل کی۔ تب جا کر عقدہ کھلتا ہے کہ خاندان میں یہ عوارض عام ہیں۔
سوال: کیا پاکستان میں نفسیاتی ایمرجنسی سے نپٹنے کا کوئی نظام موجود ہے؟
واصف: بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں یقیناً ایک سسٹم کافی عرصے سے موجود ہے۔ ڈیوٹی پر تعینات میڈیکل افسر کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس کیس کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ ادویات کا فقدان ضرور ہے۔
سوال: کیا پاکستان میں نفسیاتی کرائسس مینجمنٹ کا تصور پایا جاتا ہے؟
واصف: نفسیاتی ایمرجنسی، کرائسس انٹروینشن اور نفسیاتی نرسنگ کا تصور تو ہے لیکن وجود نہیں۔ کواسجی انسٹی ٹیوٹ، سول اسپتال، جناح اسپتال جیسے بڑے بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایک 247 ہیلپ لائن قائم کی گئی تھی جہاں خودکشی کا خواہاں فرد یا عزیز فون کر کے مدد حاصل کر سکتا تھا۔ سرکاری طور پر اس کا خوب چرچا کیا گیا اور کریڈٹ لیا گیا لیکن تربیت یافتہ عملہ، کاؤنسلرز اور فنڈز کی نایابی کے سبب یہ اب تک غیر استعمال شدہ ہے۔ کرائسس کی کیفیت میں مریض کے پاس پرائیویٹ نفسیاتی شفا خانوں پر جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا جن پر وہ مریض آتے ہیں جن کا بریک ڈاؤن ہو چکا ہوتا ہے۔
مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودکشی کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے، اس کے طریقے مزید متشدد ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشی و سماجی دباؤ تلے کچلے افراد پورے پورے خاندان کو ذبح کر کے اپنی جان لے رہے ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر مسئلہ ہے جو کسی ہمہ جہت حل کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔