فیصل آباد کے ایک نجی میڈیکل کالج کی فرسٹ ائیر کی طالبہ نے خودکشی کی کوشش کی، جو اب زندگی موت کی کشمکش میں ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ طالبہ کی شاید کوئی stage /substage فیل تھی، پروفیسرز نے ڈرا دیا کہ آپ فیل ہو گئے ہم آپکو پراف میں فیل کر دیں گے، گھر والوں کو رزلٹ بتا دیا گیا، انہوں نے طالبہ کو ڈانٹا، ڈپریشن اور anxiety حد سے بڑھ گئی، جسکی وجہ سے طالبہ نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
پاکستان میں میڈیکل سٹوڈنٹس میں ڈپریشن کی شرح سب سے زیادہ ہے، ڈپریشن کی شرح فرسٹ ائیر MBBS کے طلبہ میں سب سے زیادہ ہے، کیونکہ FSC کے بعد تعلیم یکدم مشکل ترین ہو جاتی ہے، سلیبس بھی لمبا ہوتا ہے، تو Fsc سے آنے والے طلبہ کیلئے یہ سال بہت مشکل ہوتا ہے۔ میڈیکل کے امتحان اور باقی امتحانات میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ آپ کو تھیوری، viva اور پریکٹیکل علیحدہ علیحدہ پاس کرنے ہوتے ہیں، ایک میں بھی فیل مطلب آپ پورے سبجیکٹ میں فیل تصور ہوتے ہیں، تو جب فرسٹ ائیر کے طلبہ کو یہ پتا چلتا ہے تو وہ مزید ڈپریشن میں آجاتے ہیں۔ تو اس سال طلبہ کو شفقت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ اس طالب علم کا واسطہ کسی اکھڑ مزاج پروفیسر سے پڑ جائے تو حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔
میڈیکل کالج میں، آپکے سارے امتحانات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جسے internal assessment کا نام دیتے ہیں، سالانہ امتحانات میں اس ریکارڈ کی بنیاد پر آپ کو نمبر دئیے جاتے ہیں، کچھ پروفیسرز اسی assessment کو بنیاد بنا کر آپکو پاس فیل کر دیتے ہیں، تو میڈیکل سٹوڈنٹس کے لیے یہ ریکارڈ کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ نجی کالج میں جو افسوناک واقعہ پیش آیا، اسکی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ طالبہ کا ٹیسٹ فیل ہو گا، کہا گیا کہ آپ تو سالانہ امتحانات میں بھی فیل ہو جاؤ گی جو کہ اس واقعے کی بنیاد بنا۔
راقم جب خود فرسٹ ائیر MBBS میں تھا، مجھے بھی اسی قسم کے حالات کا سامنا تھا۔ ٹیسٹ فیل ہو رہے تھے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، لیکن خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے اپنی بڑی بہن ڈاکٹر افراح کی بڑی سپورٹ حاصل تھی۔ وہ مجھے بس یہی کہتی تھی کہ بس لگے رہو، پاس فیل کو مارو گولی، بس پڑھنا نہیں چھوڑنا۔ یہی بات ڈاکٹر ابوبکر (میرے کلاس فیلو) سمجھاتے تھے۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ میڈیکل کالج میں فیملی اور فرینڈ سپورٹ کتنا اہم ہوتی ہے۔ اگر آپکے دوست، آپکی فیملی اپکو سپورٹ کرتے رہیں گے تو ڈپریشن بتدریج کم ہوتی جائے گی۔
ہمارے ہان سٹوڈنٹ کونسلنگ بلکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ طلبہ کس حال سے گزر رہے ہیں، اسکی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ بس کتابوں کا رٹنا ہی کامیابی کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ جسکی وجہ سے میڈیکل سٹوڈنٹس کی مینٹل ہیلتھ پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ڈپریشن میڈیکل سٹودنٹس میں پائی جاتی ہے۔ مشکل تعلیم، گریجویشن کا لمبا عرصہ اور اساتذہ کا رویہ اس کا سب سے بڑا سبب ہے۔ میڈیکل کالجز میں behavior sciences کا سبجیکٹ تو پڑھایا جا رہا ہے، لیکن اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں بلکل نظر نہیں آ رہا۔
ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر طلبہ کو زبانی امتحان میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ انٹرنل assessment کے نام پر انکو ڈرایا جاتا ہے، اگر ایک آدھ کلاس ٹیسٹ فیل ہو جائے تو پوری کلاس کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے، والدین کے سامنے ایسا منظر پیش کیا جاتا ہے کہ ٹیسٹ نہیں خدانخواستہ سالانہ امتحان فیل ہو گیا ہے۔ یہ وہ چند بنیادی وجوہات ہیں، جسکی وجہ سے میڈیکل سٹوڈنٹس میں ڈپریشن بڑھتی جا رہی ہے۔
اب اس سارے مسلئے کا حل کیا ہے؟ اس کے لیے چند تجاویز درج زیل ہیں ۔
1. ہر میڈیکل کالج میں کونسلنگ ڈسک بنائیں جائیں، جو کہ طلبہ کی مفت کونسلنگ کریں۔
2. ہر میڈیکل کالج میں سٹوڈنٹ کونسلر / ماہر نفسیات کا تقرر کیا جائے، جو کہ ہر میڈیکل سٹوڈنٹ کو assess کرے۔
3. سٹوڈنٹ باڈیز کو فعال کیا جائے۔
4. کالج انتظامیہ پروفیسرز / اساتذہ کی مانٹیرنگ کو لازمی کرے، ہر تین مہینے بعد طلبہ سے فیڈ بیک لے۔ جن سے طلبہ خوش نہیں، انہیں وہ کلاس نہ دی جائے ۔
5. مینٹل ہیلتھ کے لیے سیمینارز اور کانفرنسز کا انتظام کیا جائے۔
6. امتحان کی سٹریس سے بچنے کے لیے طلبہ کو گائیڈ کیا جائے۔
7۔ جو پروفیسرز زاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر طلبہ کو فیل کرتے ہیں، انہیں نوکریوں سے برخواست کیا جائے۔
ان اقدامات پر عملدرآمد کر کے، ہم کسی حد تک اس اہم مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں ۔ کلاس کے ہر طالب علم پر فرض ہے کہ اگر انکا کوئی کلاس فیلو ایسے مسائل سے گزر رہا ہے تو اسکی سپورٹ کریں ناکہ اسکا مزاق کریں۔
ایک بات پاکستان والدین کو سمجھنا ہو گا کہ کلاس ٹیسٹ میں فیل ہونے سے دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔ MBBS میں پاس فیل ہونا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن پاکستانی والدین نے اسکو زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اپنے بچوں کو صیح معنیٰ میں تحفظ دیں۔ انہیں پیار سے سمجھائیں ۔
مینٹل ہیلتھ اچھی صحت کا بنیادی جزو ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ کل کے مسیحا، اگر آج اس ٹارچر سے گزریں گے تو وہ کل کو مریضوں کا صیح علاج کیسے کر پائیں گے۔ ہمیں ایک ایسے فیملی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے جس میں نفسیاتی مسائل کو کم کرنے والے عوامل زیادہ ہوں، انہیں بڑھاوا دینے والے عناصر کا خاتمہ کرنا چاہیئے۔
مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔