ایس ایس پی نے اپنی آخری تحریر سرخ روشنائی سے لکھی۔ خط میں لکھا کہ انسان خود کشی تب کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے۔ اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے۔ سمجھدار انسان اپنی جان لیتا ہے تو رویا نہیں کرتے۔ فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے والدہ اور اہلیہ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق ایس ایس پی ابرار حسین ڈپریشن کا شکار اور ماہر نفسیات کے زیر علاج تھے۔
میاں ابرار حسین نیکوکارہ چنیوٹ کے نواحی علاقہ ہرسہ شیخاں کے رہنے والے تھے ،انہوں نے 18 جنوری 2019 کو پی ٹی ایس روات کے پرنسپل کا چارج لیا اور تقریباً ایک سال سے وہ اس عہدے پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
ایس ایس پی میاں ابرار حسین سی ٹی او فیصل آباداور ڈی پی او خوشاب بھی تعینات رہے۔
ملک بھر میں خودکشی کے رحجان میں تشویشناک اضافہ معاشرے میں پنپنے والے خاموش لیکن انتہائی خطرناک روئیے کی عکاسی کررہا ہے۔
انسانی حقوق تنظیم کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو پتا چلتا ہے ملک میں اوسطا 120 سے 150 افراد ہر ماہ اپنے ہاتھوں اپنی جان لے رہے ہیں۔ بیشتر واقعات میں پھندے سے لٹک کر یا زہریلی دوا پی کر خودکشی کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ خودکشی کے بعض واقعات بعد میں قتل بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ چاہے معاشی پریشانی کا ہو یا نامساعد حالات سے نمٹنے میں ناکامی کا، خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوتاہے۔ معاشرے میں اپنی زندگیوں کے خاتمے کے رحجان سے نمٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر حل نکالنے کے علاوہ ایسے معاملات کی تفتیش کیلئے جدید تربیت کی ضرورت ہے۔