جادوئی ہاتھ

جادوئی ہاتھ
وہ فاٹا کے دور دراز علاقے سے اسلام آباد علاج کی غرض سے تشریف لائیں، گھٹنے کی شدید تکلیف کے باعث انہیں ایک سال سے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ اکثر قریبی ہسپتالوں سے اس درد کا علاج کرواتے لیکن کوئی فرق نہ پڑتا۔ ڈاکٹرز کی جانب سے ہمیشہ انہیں مختلف دوا دی جاتی جو کچھ وقت تک اثر کرتی لیکن پھر تکلیف میں اضافہ ہو جاتا۔ وہ اپنے آپ کو محتاج سمجھنے لگے اور دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔ ایک بار شدید تکلیف کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا، وہاں پر ایک شخص نے انہیں بتایا کہ اسلام آباد میں ایک ہسپتال (national institute of rehabilitation medicine)  ہے جو اس طرح کے امراض کا علاج کرتے ہیں۔

اگلے دن انہوں نے بسترا باندھا اور اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔ جب ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات ایک فیزیوتھراپسٹ ڈاکٹر سے ہوئی۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے مرض سے آگاہ کیا، اس فرشتہ نما ڈاکٹر نے انہیں یقین دلایا کہ وہ جلد ہی اس مرض سے جان چھڑا لیں گے۔ انہیں تیس دن کے لئے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور ایکسرسائز کروائی گئی۔ ٹھیک 30 دن بعد جب ان کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو وہ اس مرض سے نجات پا چکے تھے، فیزیوتھراپسٹ ڈاکٹرز کے جادوئی ہاتھ کے باعث مریض آئے روز شفا یاب ہوتے ہیں۔

جسمانی تھراپی جو فزیوتھیراپی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے صحت سے متعلقہ پیشوں میں سے ایک ہے۔ جو کنیالوجی، الیکٹروتھراپی، شاک ویو موڈلیٹی، ورزش کے نسخے اور صحت کی تعلیم کا استعمال کرتے ہوئے دائمی یا شدید درد جیسے حالات کا علاج کرتے ہے۔ کارٹلیج کو نقصان، چکر کی خرابی اور عام طور پر پٹھوں، قلبی امراض، اعصابی اور اینڈوکرونولوجیکل کا علاج بھی کرتی ہے۔

فزیوتھیراپی کا استعمال جسمانی معائنہ، تشخیص، جسمانی مداخلت، بحالی اور مریض کے جسمانی افعال کو بہتر بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ فزیوتھراپسٹس کو مغربی ممالک میں ایک انتہائی منافع بخش اور سفید پوش پیشہ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے مگر تیسری دنیا خصوصی طور پر پاکستان میں اس پیشے کے بارے میں نہ تو کوئی آگاہی ہے اور نہ کوئی اہمیت۔

فزیوتھراپی کی اہمیت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے۔ طب کے شعبے میں یہ پیشہ ور افراد قلبی، اعصابی سائنس، کھیلوں کی دوا، پیڈیاٹریکس، بے ہوش مریض کو سانس لینے، آرتھوپیڈکس وغیرہ میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ بہت سارے فزیوتھیراپسٹ آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ، انتہائی نگہداشت کے یونٹوں وغیرہ میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ زندگی بچانے میں اس پیشہ کی بہت اہمیت ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس پیشے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جا سکا۔ ایسے لوگوں میں بیداری کا فقدان ہے جو بغیر کسی نقصان دہ دوائیں دینے اور قدرتی ذرائع سے فزیو تھراپی کے ذریعے علاج معالجے کی قدر نہیں جانتے۔

حکومت فزیوتھیراپسٹوں کے لئے کوئی مناسب پیکج فراہم نہیں کر رہی ہے۔ پاکستانی گریجویٹ پوری دنیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ لوگ مایوس ہیں۔ ملازمتوں کا فقدان، کم اجرت اور عزت کی عظمت پیشہ کی سالمیت کو بگاڑ رہی ہے۔ کافی عرصے سے میں ان کے مسائل مختلف فورمز پر اجاگر کر رہا ہوں لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ ان ڈاکٹرز کے مسائل کم ہونے کے بجائے آئے روز بڑھ رہے ہیں۔ خیر اس سے پہلے حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فزیکل تھراپی کونسل کو الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں شامل کیا جائے گا جو حکومت کی جانب سے انتہائی شرمناک اقدام تھا۔ پچھلی حکومت کی جانب سے ان کی الگ کونسل بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن تبدیلی سرکار جو پچھلی حکومتوں کی بنائی ہوئی پالیسی کو کہا مانتی ہیں اس ڈرافٹ کو نل اینڈ وائٹ قرار دے کر نیا ڈرافٹ لایا گیا۔ یہاں تک کہ اس ڈرافٹ کو ظفر مرزا نے کابینہ کے اجلاس میں بھی شامل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جوں ہی مجھے اس مسئلے کا علم ہوا تو تقریبا تمام اخبارات میں اس مسئلہ کو اجاگر کیا، جس کے بعد حکومتی وزیر نے نوٹس لیا اور فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا۔

آج کل کے دور میں انسان طرح طرح کی ادویات کھا کھا کر مزید بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ فزیکل ایکٹیویٹی نہ ہونے کے باعث بھی ہم مختلف بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ سو اس دور میں فزیکل تھراپی کا کردار انتہائی اہم ہو چکا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپسٹ کو تمام مراعات دیں۔ تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپسٹ کی آسامیاں زیادہ سے زیادہ مقرر کی جائیں۔ سینئر ڈاکٹرز کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر آگاہی مہم چلائیں اور اس کے بارے میں شعور اجاگر کریں۔ میری وزیر صحت سے بھی درخواست ہے کہ ان کی کونسل جلد سے جلد بنائی جائے اور مسائل حل کیے جائیں۔