کنا سوہنا تنوں رب نے بنایا-مست قلندر مست -دم مولا حسینی - دل مر جانے نوں کی ہویا سجنا -وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں -داتا صاحب دے دوارے -ڈول ماہیا ڈول ماہیا-
یہ وہ چند گیت ہیں جو ہم روز سنتے ہیں اور بہت مزا لیتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بار بار سنتے ہیں تو غلط بہ ہوگا کیوں کہ یہ پاکستان کے عظیم گلوکار نصرت فتح علی خان نے گائے ہیں۔
ہم پاکستان کے عظیم قوال اور گائیک نصرت فتح علی کو مانتے ہیں اور ان کی گائیکی کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جس نے دنیائے موسیقی میں اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا اور اپنے فن سے کروڑوں کمائے۔
مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ کون تھا جس کی شاعری نے نصرت کو دنیائے موسیقی میں اس بلند سطح تک پہنچا دیا- وہ گمنام سپاہی کون تھا--- شاعری کے اس گمنام سپاہی کا نام ---- بری نظامی ہے۔
بری نظامی کا اصلی نام محمد صفیر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کیو نکہ وہ حضرت نظام الدین اولیا کا ماننے والا تھا اس لئے اس نے اپنے نام کے ساتھ نظامی لگا لیا-و ہ مغلپورہ لاہور کے سید امانت علی شاہ نظامی کا مرید تھا۔
بری 26 دسمبر 1946کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک شیخ خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نے میڑک گوجرہ ہائی سکول سے کیا مگرمعاشی وجوہات کی بنا پر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ وہ چیچہ وطنی میں ایک کاٹن فیکڑِی میں منشی بن گیا۔
بعد میں جب خاندان لائلپور منتقل ہو گیا تو وہ بس کنڈ کڑ بن گیا- اس میں شاعری کی خداداد صلاحیتیں تھیں۔ اس نے شہر کے ادبی حلقوں میں بیٹھنا شروع کر دیا- جس کے نتیجہ میں اس کی شاعری میں نکھاراور پختگی آگئی ۔
یہاں شائد اس بات کا ذکر بے محل نہ ہو کہ نصر ت فتح علی خان کے خاندان کا تعلق بنیادی طور پر قوالی سے تھا۔ وہ قوال تھے۔ فتح علی، مبارک علی نے آزادی سے پہلے پورے ہندوستان میں قوالی میں بہت بڑا نام پیدا کیا تھا۔ نصرت نے بھی اپنے خاندان کی روائیت کو اپناتے ہوئے قوالی ہی کو اپنایا- مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب قوالی اتنی مقبول نہ رہی تو نصرت نے گیت گانے شروع کر دئیے اور بری نظامی نے اسے وہ گیت دیئے جن کو گا کر نصرت نے گیت کی گائیکی میں اپنا نام پیدا کیا۔
بری کا تعلق پنجابی کی لوک، فوک، عوامی روایت سے تھا۔ اس نے ایک مایوس عاشق کے جذبات پیش کئے ہیں جو 'اپنے خالق سے وصال چاہتا ہے'- -یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ نصرت فتح علی کو عالمی شہرت ملی اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، پاکستان میں بہت مشہور ہوا مگر بری ایک گمنام سپاہی کے طور پر مرا-
بری شادی شدہ تھا اور اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں-اس کا خاندان ایک مزدور بستی میں کرایہ کے مکان میں رہتا تھا اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا-
جوانی میں ذوالقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان نے اسے متا ثر کیا اور وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا- وہ ڈسڑک کمیٹی کا ممبر تھا اور جلسوں میں انقلابی نظمیں پڑھتا تھا-
اس کا تعلق پیپلز پارٹی کے ان متحرک کارکنوں سے تھا جو 1970 میں مغربی پاکستان میں پی پی کے الیکشن جیتنے کے بعد ذولفقار علی بھٹو سے مایوس ہو گئے تھے- اس کا تعلق باغی مختار رانا گروپ سے تھا- بری کو بھٹو کے خلاف نظم لکھنے کی پاداش میں جیل جانا پڑا۔
بری کے خیالات اور ولولے میں ضیا کے دور میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی-بقول بری کے بڑے بیٹے شکیل بری اس کےباپ کے خلاف بھٹو کی حکومت میں 7، جنرل ضیا کے دور میں 11 اور بے نظیر کی حکومت میں 6 مقدمات درج ہوئے۔
اس نے کچھ دیرایک اخبار میں بطور سب ایڈیٹر بھی کام کیا- وہ ٹریڈیونین میں بھی متحرک ہوا اور ریڑھی چھابڑی یونین کا صدر تھا۔
90 کی دہائی کے شروع میں وہ شیر علی اور پنجاب کے صوبائی وزیر ملک قیوم اعوان کے اصرار پر مسلم لیگ میں شامل ہو گیا-
ضیا دور میں وہ حج کرنے سعودی عرب گیا-وہ دس دفعہ حج کرنے گیا- کہا جاتا ہے کہ وہ واپسی پر چند اشیا وہاں سے لے آتا تھا جنہیں بیچ کر وہ گذارا کرتا تھا-
بری کو ضلعی انتظامیہ نے بطور فیور ہفتہ وار 'بری' اخبار کا ڈکلیریشن دیا تھا- یہ جنم سے پہلے ہی مر گیا کیوں کہ بری کے پاس اسے چلانے کے لئے وسائل نہ تھے- بری نے ہزاروں نعتیں غزلیں، گیت اور نظمیں لکھیں- لیکن اس کا دیوان نہیں چھپ سکا- گو اس کا مسودہ خاندان کے پاس ہے- ڈر ہے کہ اگر یہ نہ چھپا تو ہمیشہ کے لئے گم ہو جائے گا-
نصرت فتح علی خان کی طرح بری نظامی نے عوامی فوک سنگر عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو بھی گیت دئے -
-'تساں کو مان وطناں دا، اساں آں یار پردیسی-عیسیٰ خیل دور تے نہی- راتاں دیاں نینداں گوایاں تیرے لئے-
1992 میں وہ آنکھوں کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور اس طرح وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا گیا پیٹ کا زخم اور تپ دق وغیرہ - اسے فالج ہو گیا اور زیادہ تر ہسپتال میں رہا- اور آخر کار فوت ہو گیا.
ادبی حلقوں میں غم و غصہ ہے کہ بری کو وہ نام شہرت اور معاشی تحفظ نہیں ملا جس کا وہ حقدار تھا-اس کے دوستوں اور نصرت فتح علی نے بھی مدد دی لیکن یہ خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کافی نہیں تھی-اس بات کا سہرا ڈ اکڑوں کے سر ہے جنہوں بغیر کسی معاوضہ بری کو ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کیں -
گو زند گی کے آخری حصہ میں اسے فالج ہو گیا تھا مگر وہ ذہنی طور پر مستعدد تھا - وہ اپنے تکیہ کے نیچے ہمیشہ کاغذ اور قلم رکھتا تھا تاکہ جب اس کا دل چاہے لکھ سکے-
اس نے اپنے بستر مرگ پر یہ آخری نظم لکھی -
کون کسے دا غم لیندا ایہ-
ہر کوئی اپنا کم لیندا ایہ-
کدی کدی دنیا وچ بندہ کلا رہ جاندا ایہ
اس کے دوست اور بہت بڑے لکھاری مرحوم افضل احسن رندھاوا نے اس کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا –'اس ملک میں لکھاری کا مقدر تکلیف اور غربت ہے- یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ لکھاریوں کا خیال رکھے-ریاست ایک دفعہ پھر اپنے فریضہ میں ناکام رہی ہے- کوئی مالی امداد نہیں، کوئی میڈل نہیں'-
پاکستان اکیڈیمی آف لیڑز نے بھی کبھی اس کے خاندان سے نہ تعذیت کی اور نہ کوئی مالی امداد کی.