وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں نیشنل امیچر شارٹ فلم فیسٹیول کی انعامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں وہی فلم انڈسٹری ترقی کرتی ہے جہاں ’اورجنل کانٹنٹ‘دکھایا جاتا ہے یعنی ایسا مواد جو کسی کی نقل میں نہ بنایا گیا ہو۔ لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے مغرب اور بھارت کی کاپی کرنے کی کوشش کی اور ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ پاکستان میں اورجنل کانٹنٹ پر مبنی فلم بنانے کی کتنی آزادی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشہ‘ ریلیز ہونے سے قبل ہی غیر اعلانیہ پابندی کا شکار ہے۔
تاہم، اسی خطاب کے دوران وزیر اعظم نے استاد نصرت فتح علی خان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شوکت خانم کی تعمیر کرنے کے لئے میں انہیں بیرون ملک لے کر گیا جہاں میں نے ان کی بیرون ملک پاپ سٹارز سے ملاقات کروائی اور وہ ان کے ہنر کے گرویدہ ہو گئے۔ اسی بات کے اگلے جملے میں انہوں نے کہا کہ اس وقت بہت سے پاپ سٹارز نے مجھے کہا کہ میں انہیں بھی متعارف کرواؤں مگر ان کی اہمیت نہیں تھی کیونکہ وہ بھی مغرب کو کاپی کیا کرتے تھے۔
اس ساری بات چیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے نیا دور پر ایک خبر شائع کی جسے مختصر عنوان دیتے ہوئے لکھا گیا کہ 'میں نے نصرت فتح علی خان کو متعارف کروایا: وزیر اعظم عمران خان‘۔
یہ سرخی لکھنے کا مقصد ان کی کہی گئی اس بات کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔ اور اگر انہوں نے دنیائے موسیقی کے ایک بہت بڑے نام کے بارے میں یہ دعویٰ کیا تھا تو اسے منظرعام پر لانا قطعاً غلط نہیں تھا۔
اس خبر پر قارئین نے مختلف تبصرے دیے۔ عمران خان کے مخالفین نے اسے ایک مضحکہ خیز بات قرار دیا جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کے سپورٹرز نے کہا کہ عمران خان نے بالکل درست بات کی ہے کیونکہ اس وقت نصرت فتح علی خان کو واقعی کوئی نہیں جانتا تھا۔ تاہم، جب وزیراعظم کی اس بات پرمذاق بننا شروع ہوا تو تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹراکاؤنٹ نے اس خبر کو ہی فیک قرار دے ڈالا، ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین نے نیا دور کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اول تو یہ فیک خبر کہیں سے نہیں اور نہ ہی فیک خبر کے کسی معنی پر پورا اترتی ہے۔ تاہم، خبر کا عنوان دینا ایک ایڈیٹر کی صوابدید ہے۔ اسی لئے بحیثیت ایڈیٹر میں نے یہ عنوان دیا جس پر مجھے یا میرے ادارے کو کوئی ندامت نہیں۔
سیاسی وابستگی ایک مکمل ذاتی عمل ہے اور ہم تمام سیاسی وابستگیوں کا احترام کرتے ہیں لیکن اس وابستگی کی مد میں آپ حقائق سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ لہٰذا اس خبر کو فیک کہنے سے قبل اپنے وزیر اعظم عمران خان کے ماضی میں نصرت فتح علی خان سے متعلق ریمارکس کا جائزہ ہی لے لیتے تو ان حمایتی لوگوں کو اندھی تقلید پر مبنی تجزیے اور الزامات لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایسی بات کر ہی نہیں سکتے تو نیچے دی گئی ویڈیو کا کلپ ضرور دیکھیں جس میں عمران خان بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے کہ ہیں کہ
’انٹرٹینمنٹ ہی قوالی تھی اور نصرت فتح علی خان چھوٹے سے بیٹھے ہوتے تھے۔ تو پھر جب میں شوکت خانم کے لئے پیسے اکٹھے کیے تو ان میں نے ایک دو کنسرٹس میں بلایا۔ اور ان کو تب کوئی نہیں جانتا تھا۔ پھر میں ان کو امریکہ لے گیا۔ ایک ہی امریکہ کے دورے کے بعد نصرت فتح علی خان کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔‘
تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ نے نیا دور پر الزام لگاتے ہوئے اپنے تبصرے میں لکھا کہ میڈیا ہاؤسز اس طرح کی خبریں لگاتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ ملک میں آزادی صحافت نہیں۔
اب اس پر کیا ہی تبصرہ کیا جائے؟ آزادی صحافت وہ ہے ہی نہیں کہ اگر حکومت مخالف کوئی خبر چلائی جائے تو ملک میں صحافت آزاد ہے۔ ایسے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں درجنوں ایسے چینلز اور اخبارات تھے جو حکومت مخالف پراپیگنڈا میں سر فہرست تھے، اور خود تحریک انصاف ان چینلز اور اخبارات کو پسند کرتی تھی۔ عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ فلاں چینل تحریک انصاف کا ہے اور فلاں ن لیگ کا۔ خود عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر جیو یا حامد میر نہ ہوتا تو تحریک انصاف آگے بڑھتی ہی نہ، اس ملک میں سیاسی لانے میں میڈیا اور خاص کر جیو اور حامد میر کا بہت اہم حصہ ہے۔
پاکستان آزادی صحافت میں آج بھی 145ویں نمبر پر ہے اور اس کی وجہ اس طرح کی خبریں نہیں مگر صحافیوں، میڈیا اداروں پر حملے اور صحافیوں کی خبروں کو روکنا اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا ہے اور یہ عمل سب سے پہلے کردار کشی سے شروع ہوتا ہے اور پھر حملے کر کے ختم ہوتا ہے۔
گذشتہ سال صحافی مطیع اللہ جان پر حملہ ہوا، سپریم کورٹ نے زور دیا ہے کہ اسے اغوا نہیں مبینہ طور پر اغوا لکھا جائے لہٰذا انہیں مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ مگر ایک سال گزر جانے کے باوجود اس کیس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ البتہ انہی پر الزامات لگائے گئے اور ان کی کردار کشی کی گئی۔ اس کے بعد صحافی ابصار عالم پر حملہ ہوا جس کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ گولی لگنے کے بعد وہ زندہ کیسے ہے؟ گویا ہمارے اس ملک میں اگر آپ گولی لگنے کے بعد بال بال بچ جائیں تو بھونڈی تنقید کے لئے تیار رہیں وگرنہ اس بات پر افسوس کریں کہ انہیں یقین دلانے کے لئے آپ مر کیوں نہیں گئے۔ اسی طرح صحافی اسد طور پر حملہ کیا گیا جسے لڑکیوں کے بھائیوں کی مار سے تشبیہ دے کر اس سنجیدہ مسئلے کو بھی ٹرولز کی نذر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور بالآخر وہ صحافی جو گذشتہ کئی سال تحریک انصاف کی آنکھ کا تارا رہے، جو گذشتہ کئی سالوں سے جنگ میں لکھتے رہے اور جیو پر پاکستان کا سب سے بڑا نیوز ٹاک شو کرتے رہے انہیں بھی الزمات کی مد میں نوکری سے دستبردار کروا دیا گیا۔
آزادی صحافت کا عالم اور وزیر اعظم کے اس بیان جہاں سے بات شروع ہوئی کہ اوریجنل کانٹنٹ کا فقدان ہے کی مثال یہی ہے کہ یہاں نہ کوئی اورجنل خبر چلنے دی جاتی ہے اور نہ ہی اورجنل فلم۔ ’زندگی تماشہ‘ جیسی عالمی ایوارڈ کے لئے نامزد فلم کو ملک میں چلانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس کی وجہ اور کچھ نہیں اس ملک میں بولنے کہنے اور دکھانے پر پابندیاں ہیں۔
نیا دور پر عمران خان کے اس بیان کی خبر لگانے پر پر تنقید کریں، ہمیں تنقید سے کوئی مسئلہ نہیں۔ بس لوگوں کو اغوا نہ کیا جائے، ان پر گولیاں نہ چلائی جائیں، ان کو غنڈے بھیج کر پٹوایا نہ جائے، ان کو دھمکیاں نہ دی جائیں، تو یہ بقول شخصے 'نکی نکی ڈھولکی' تو بجاتے رہیے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔