ایک فلک شگاف قہقہے کی موت

ایک فلک شگاف قہقہے کی موت
وہ اپنی طرز کا واحد ادکار تھا جس کی برجستگی مکالموں پر عوام مسکراتے نہیں تھے بلکہ قہقہے لگاتے تھے اور وہ بھی فلک شگاف قہقہے۔ عمر شریف حقیقی معنوں میں شہنشاہ کامیڈی تھے اور ظرافت کی دنیا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 61 سالہ عمر شریف کراچی کے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے، جو احباب انکے تھیٹر پلے باقاعدگی سے دیکھتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لیاقت آباد لالو کھیت کے بارے میں وہ کس روانی اور دل سے جملے بازی کرتے تھے۔

اپنے آبائی گھر کے سامنے جو قوال رہتے تھے ان کے ساتھ ان کا بچپن گزرا اور اپنی قوت مشاہدہ کے باعث اس فن کو اپنے مختلف کرداروں میں خوب نبھایا۔ پہلے ہی ڈرامے میں 14 سال کی عمر میں کام کیا جسے خوب سراہا گیا 80 کی دہائی میں جب ان کو پی ٹی وی پر تھوڑا بہت کام ملا تو انکی ملک گیر پہچان ہوئی۔ انہوں نے ایک نیا تجربہ کیا، ٹیپ ریکارڈر کا دور تھا تو آڈیو کیسٹ بہت چلتے تھے عمر شریف نے آڈیو کیسٹ کے ذریعے اپنی کامیڈی کو گھر گھر پہنچا دیا ،اس وقت کی ٹاپ ریکاڈنگ کمپنیوں نے انکے آڈیو کیسٹ ریلیز کئے جو بہت کامیاب ہوئے۔

اسیا پہلی بار ہوا کہ لوگ گانوں کے علاہ کامیڈین کے بھی کیسٹ خریدتے۔ پھر وی سی آر کا دور آیا، بھارتی فلموں کی ویڈیو ریلیز کا انتظار کیا جاتا۔ اس وقت کے ٹاپ اسٹارز امیتابھ بچن اور متھن چکرورتی کی فلموں کے سامنے صرف ایک پاکستانی اداکار عمر شریف کے ڈراموں کی مانگ ہوتی۔ انہوں نے تھیٹر کو ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے پوری دنیا میں مقبول کروایا۔ ایک بار انہوں نے کسی انٹرویو میں کہا کہ مجھے مقبول کروانے میں کسی ہدایت کار کا کردار نہیں بلکہ اس سائنس دان کا ہاتھ ہے جس نے وی سی آر ایجاد کیا تھا۔

بکرا قسطوں پر، کے پانچویں پاٹ ،بڈھا گھر پہ ہے، یس سر نو سر، ون ڈے عید، آؤ سچ بولیں، بیگم میری بی بی سی، عمر شریف حاضر ہو، دلہا ہزار سی سی، نہ جانے اور کتنے سپر ہٹ ڈرامے جو صرف انکے نام سے بکتے تھے۔

وہ پاکستان کے واحد ادکار تھے جن کے تھیٹر پلے کراچی لاہور اور راولپنڈی میں چلے، تماشائیوں کا جوش ہجوم قابل دید تھا۔ یہ وقت انکے عروج کا تھا وہ جس پتھر کو چھو رہے تھے وہ پارس بن رہا تھا۔ ریڈیو، آڈیو کیسٹ، ٹی وی، تھیٹر اور تھیٹر کو ویڈیو کیسٹوں کے بعد انہوں نے سلوراسکرین کا رخ کیا۔ بطور مصنف و ہدایت کار اپنی پہلی فلم مسٹر چار سو بیس بنائی جس میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کیا۔ اس سے پہلے وہ فلموں میں ثانوی کردار ادا کر تے تھے۔

مگر مسٹر چار سو بیس جس میں ان کے ساتھ تین ہیروئن ،روبی نیازی،شکیلہ قریشی ،اور مدیحہ شاہ نے کام کیا اس فلم کا ایک کردار (جس میں وہ جنگل میں پرورش پانے والے ایک بندر نما آدمی کا رول اس مہارت سے نبھایا) دیکھنے والا شسشدر رہ جاتا ہے۔ فلم سپر ہٹ رہی اسکے بعد انہوں نے بطور مصنف و ہدایت کار مسٹر چارلی بنائی وہ بھی سپر ہٹ رہی پھر مس فتنہ جو اوسط درجے میں کامیاب ہوئی اور چاند بابو جو فلاپ ہو گئی۔

عمر شریف نے 40 کے قریب فلموں میں کام کیا مگر ان کا بہترین کام ان فلموں میں ہے جن کے ہدایت کار وہ خود تھے تاہم سنگیتا کی بہروپیا اور جاوید فاضل کی آوارگی بھی قابل ذکر فلمیں ہیں۔ عمر شریف نے 70 کے قریب اسٹج ڈراموں میں بطور منصف وہدایت کار بہترین کام کیا اسکے علاوہ سید فرقان حیدر نے بھی تھیٹر میں ان سے شاندار کام لیا۔ بالی ووڈ میں ان کے نام کا ڈنکا خوب بجا وہاں بطور مصنف و ہدایت ایک فلم بھی شروع کی جس میں ماضی کے سپر اسٹار راجیش کھنہ کو کاسٹ کیا مگر فلم مکمل نہ ہو سکی۔ انکے ایک معاون بتاتے ہیں چونکہ عمر بھائی کو پہلے سکرپٹ تیار کرنے کی عادت نہ تھی وہ سیٹ پر جا کر کام کرنے کے عادی تھے جو بالی ووڈ میں نہ چل سکا۔

پاکستان میں سن دو ہزار کے بعد نجی چینلوں کی نشریات خوب ملی تو عمر شریف ٹی وی کے ہو گئے اور تمام ٹاپ کے ٹی وی چینلز پر انکے پروگرام چلتے اور کامیاب بوتے۔ آج وہ ہم میں نہیں انہوں نے فن ادکاری کے تمام شعبوں ریڈیو، آڈیو کیسٹ، ٹی وی تھیٹر اور فلم میں کام کیا اور اپنا لوہا منوایا کہ بلاشبہ وہ ہی شہنشاہ کامیڈی تھے۔ ان جیسا نہ کوئی تھا نہ آئے گا، انکی موت قہقہے کی موت ہے اور قہقہ بھی کوئی عام نہیں بلکہ فلک شگاف قہقہے کی موت۔
عمر شریف صاحب آپ کو سلام

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔