پچھلے دنوں تاریخ میں پہلی بار اکسٹھواں یوم گوادر منایا گیا جو گوادر کے 1958 کو پاکستان کا حصہ بننے کا دن ہے، اس سے پہلے گوادرکا شہرت یافتہ علاقہ سلطنت آف عمان کا حصہ تھا، اور اس سے بھی پہلے بلوچستان کا۔
بقول کچھ مقامی صحافیوں، رپورٹوں اور تصاویر کے شہر کے با اثر طبقے، اداروں اور مقامی ماٸی گیروں نے اس جشنِ گوادر میں بھرپور شرکت کی اور مقامی ماٸی گیروں نے کشتیوں کی ریس میں فلک شگاف نعرے لگا کر اس یوم آزادی کو دھوم دھام سے منایا، شاید اس تمام صورتحال کو دیکھ کر کسی مجبور صحافی کے ذہن میں یہ سوال بھی آیا ہو گا کہ یہ مکار اور چال باز ماہی گیر جو ناچ کر یہ دن منا رہے ہیں وہ آئے دن اپنے معاشی استحصال کا ناٹک کیوں کرتے ہیں؟
کیا اکسٹھ سال پہلے بھی جب یہ مقامی ماہی گیر اپنے پرانے سڑے ہوٸے بوسیدہ جالوں کو لے کر اپنی پرانی کشتیوں سے کھلے سمندر میں روزگار تلاش کرنے جاتے تھے تو سمندر میں پہلے سے اغیار کی کشتیاں ان کی حدود میں اپنے جدید جالوں اور ٹرالرز سے مچھلیوں کے بیج تک کا صفایہ کرچکے ہوتے تھے؟
کیا یہ جشن گوادر میں ناچنے والے محب وطن ماہی گیر اب اپنے بچوں کو قابض سلطنت آف عمان سے آزادی کے بعد عمان میں روزگار اور سپاہی بنانے کیلئے نہیں بھیجنا چاہتے؟
اس قدر دہرا معیار کہ ایک طرف کشتیوں پہ سوار فلک شگاف نعرے اور دوسری طرف عین گوادر پورٹ کے سامنے ملا موسی موڑ پہ وقتا فوقتا دھرنا دے کر بیٹھنا اور ترقی کے ضامن سی پیک کو مشکوک کرنا؟ اور بلاوجہ کبھی کسی تعمیرات کے خلاف بولنا اور کبھی بے دخلی کا رونا رولینا، یا تو صحافی جذبات میں آکر یہ پوچھنا بھول گئے ہیں یا پھر واقعی خوشی کی انتہا نہ رہی ہو گی۔
خیر اسی طرح کا ایک جشن پچھلی چودہ اگست کو بھی منایا گیا تھا جہاں کٸی کٸی کلومیٹر تک پھیلے رنگ برنگی مہنگی گاڑیاں سوٸچ بورڈ پر سبز ہلالی پرچم رکھ کر ریلیوں کی صورت میں شاہراوٶں کے چکر لگا رہے تھے اور اس شہر کی امیرانہ صورتحال کو صحافتی کیمرے ریکارڈ کر رہے تھے، مگر اسی دن ایک استاد جو روز قومی زبان اردو کا مضمون پڑھاتا ہے، روز صبح اسمبلی میں اسی سبز ہلالی پرچم کے ساٸے میں بچوں سے ملی نغمہ پڑھوا کر معمار قوم کو درس دیتا ہے، اپنے سکول کے پروگرام میں یہ شکایت کر رہا تھا کہ اس شہر کو ان سے چھینا جارہا ہے، اسے اب وہ آزادی حاصل نہیں جو اس کے آباؤ اجداد کو حاصل تھی، روز صبح گھر سے نکل کر اسے کسی سڑک پر روکا جاتا ہے کہ فی الحال وی آٸی پیز گزر رہے ہیں روڈ بند ہے۔
اکسٹھ سال پہلے کے گوادر میں کوٸی فلک شگاف نعرہ، کوٸی کیمرہ اور کوٸی نماٸشی تعریفی نوجوان قیادت، فخر گوادر اور ایسا کوٸی چالاک طبقہ نہیں تھا جو طبقاتی نظام کے پسے ہوٸے نچلے طبقے کو استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہو سب سادہ سے لوگ تھے، ایک دن ایک نامی گرامی نوجوان قیادت سے اپنے تعلیمی مساٸل سے متعلق بات ہوٸی تو اس نے مجھے اپنے ساتھ پکنک پر آنے کی دعوت دی، پکنک ختم ہونے کے بعد سیاسی اور سماجی مساٸل پر گفتگو شروع ہوٸی تو ہر خاص و عام جناب کی تعریف میں فلک شگاف نعروں سے آسمان و زمین یکجا کرنے لگے، میں نے گستاخی کی اور انہی فلک شگاف نعروں اور کیمرے کیلے بناٸے گۓ جشن و جوش کا ذکر کیا تو بس ”آپ کے ملائے گٸے نمبر سے رابطہ ممکن نہیں“ والا قصہ شروع ہو گیا ۔
اکسٹھ سال پرانے گوادر میں وی آی پیز کا کوٸی وجود نہیں تھا، سمندر صرف مقامی ماٸی گیر کا تھا، جب چاہتے روزگار کے لیے جاتے کوٸی روکنے والا نہیں تھا کہ کشتی کا کارڈ دکھاٶ، پھر اپنا کارڈ دکھاٶ، اور کسی احتجاجی دھرنے کا کوٸی وجود بھی نہیں تھا۔
اسی ماٸی گیر کا جو رشتہ دار اس وقت عمان چلا گیا تھا وہ آج عمان میں کسی اعلی طبقے کی نماٸشی ریلی میں شرکت نہیں کرتا، وہ ایک آزاد شہری ہے مگر یہاں کا ماہی گیر فلک شگاف نعروں والے کیمرے میں ریکارڈ شدہ تصویر کے پیچھے بے روزگار، نسلی تعصب کا شکار، وی آٸی پی جیسے برہمنوں کے سامنے اچھوت بن کر رہ گیا ہے، ناں اس کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام ہے ناں نومولود بچے کی پیداٸش کے لیے کوٸی ہسپتال جس میں سہولیات ہوں، ناں پینے کا پانی، اگر کچھ ہے تو کیمرے میں محفوظ اس کے فلک شگاف نعرے۔
گوادر کا ماہی گیر وہ بدقسمت طبقہ ہے جو سالوں سال مزدور بن کر بھی قانوناً مزدور نہیں، ایک طبقاتی نظام کا ماری یہ مخلوق جو نعرے بھی لگاتی ہے۔ جو ان سے یہ فلک شگاف نعرے لگواتے ہیں وہ اعلی درجے کے شہری بن کر کسی عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں تو کوٸی اداروں تک مگر یہ غریب نعرے باز ہمیشہ افلاس زدہ، استحصال کا مارا اور مشکوک ہی رہتا ہے، اکسٹھ سال پہلے ماٸی گیر کا بچہ ان پڑھ تھا جو دن کو والد کے ساتھ ماٸی گیری کے لیے سمندر کی موجوں سے لڑتا تھا اور شام کو کھلے ساحل سمندر پر فٹ بال کھیلتا تھا مگر آج اکسٹھ سال بعد ماٸی گیر کا بچہ نشئی ہے، ناں تو سمندر کی موجوں سے لڑنے کی طاقت رکھتا ہے اور ناں ہی کوٸی کھلا ساحل باقی رہا۔
اکسٹھ سال پہلے اس شہر کا ہر باشندہ غریب تھا مگر بیمار نہیں تھا، آج تعصب کا شکار ہے، ذہنی مایوسی میں مبتلا ہے، اگر چاپلوسی جانتا ہے تو ایک اعلی طبقے کا پیروکار ہے ورنہ مشکوک ہے۔
آج کی گوادر فلک شگاف نعروں کا ری میکس اور کیمرے کی آنکھ کا ایک سجایا گیا اداکار ہے جو کسی این جی او کے فوٹوسیشن کے لیے تیار شدہ بس ایک فارمیلیٹی ہے۔