قدیم اور تاریخی ورثے کسی بھی قوم کی قدیم تہذیب اور تمدن کی عکاسی کرتے ہیں ، جو کہ اس قوم کی ثقافت اور تہذیب و تمدن سے جڑے ہوتے ہیں۔
گوادر کے قدیم آثار قدیمہ یہاں کے لوگوں کی قدیم طرز زندگی اور تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہیں، اب انکو اصل شکل میں لانا ممکن نہیں مگر انکو مرمت اور تزئین و آرائش کے بعد محفوظ کیا جارہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گوادر کے ان قدیم ورثے کی بحالی اور انکو محفوظ بنانا مقامی لوگوں کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس مطالبے پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے گوادر کے قدیم ورثوں کی بحالی کا آغاز کیا ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کہتے ہیں کہ ان ورثوں کو بحال کرنے کے بعد ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔
سی پیک کے شہر گوادر جہاں برطانوی دور کے اور سلطنت آف عمان دور کے آثار ملتے ہیں کیونکہ یہ شہر برطانوی راج کا بھی حصہ رہا ہے اور سلطنت آف عمان کی زیر تسلط رہا ہے۔پرتگیزیوں نے اس علاقے میں اپنا قبضہ جمانے کی بھی کوشش کی ہے اور پرتگیزی دور کے آثار بھی گوادر میں پائے جاتے ہیں۔
قدم ورثے کی بحالی گوادر کے شہریوں کا ایک دیرینہ مطالبہ
برطانوی دور اور سلطنت آف عمان کے دورمیں بنائے گئے یہ قدیم ورثے منہدم ہونے کی طرف جارہے تھے، جن کے منہدم ہونے کے ساتھ یہ تاریخی اور قدیم ورثے تاریخ کے صفحوں میں مٹ جانے کا خطرہ بھی لاحق تھا۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ان قدیم ورثوں کی بحالی اور محفوظ بنانے کی اقدام سے اب یہ ورثے پھر تاریخ میں ذندہ رہیں گے اور لوگوں اور سیاحوں کی نظروں میں آئیں گے۔
گوادر ٹیلی گراف آفس
مختلف دستاویزات کے مطابق انگریزوں نے 1863 میں گوادر کو ٹیلی گراف کے ذریعے کراچی سے منسلک کیا گیا تھا، اور 18 ویں صدی میں برصغیر آمد کے بعد انگریزوں نے کلکتہ سے پورے برصغیر تک اپنا مواصلاتی نظام پھیلایا تھا۔ جبکہ 1894 میں گوادر میں پہلا ڈاکخانہ قائم کیا گیا تھا۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایگزیکٹو انجینئر کاشف احمد بلوچ جو کہ اس پروجیکٹ کا حصہ ہیں، ان کا کہنا تھا اسی ٹیلی گراف لائن سے ایشیا کو یورپ سے منسلک کیا گیا تھا۔اس کا کام مکمل ہوچکا ہے اور اب ادارہ ترقیات گوادر اسکو ایک میوزیم بنا کر سیاحت کو فروغ دے گا۔
سائیٹ انجینئر ذاکر نور نے بتایا کہ یہ گوادر کے قدیم ورثے ہیں اور انکو محفوظ بناکر گوادر کی قدیم تاریخ کو محفوظ بنایا جارہا ہے کیونکہ ذندہ قوموں کی تہذیب و تمدن انکی رہن سہن اور طرز زندگی کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے مذید بتایا کہ گوادر کے ان قدیم ورثوں کی بحالی سے نہ صرف یہاں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ گوادر کی قدیم تاریخ کے حوالے سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔
گوادر ریسٹ ہاؤس یا چارپادگو
گوادر بلوچ وارڈ کے قریب سمندر کے قریب ایک خستہ حال عمارت جو کہ زمانہ قدیم میں گوادر ریسٹ ہاؤس تھا اور مقامی لوگ اسکو چارپادگو کے نام سے پکارتے ہیں۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے گوادر کے جن چار سائیٹ کی بحالی کا کام جاری ہے ان میں سے ایک چارپادگو ہے، جس کو پرانے ڈیزائن میں تزین و آرائش کا کام جاری ہے اور اس قدیم عمارت کی تعمیر میں اس وقت زیادہ تر لکڑی کے تختوں کا استعمال کیا گیا اور اب بھی اسکی دوبارہ بحالی کے لئے اسی ڈیزائن پر کام جاری ہے۔
کاشف احمد بلوچ نے بتایا کہ گوادر ریسٹ ہاؤس کی تزین و آرائش اور بحالی کا کام جاری ہے اور مکمل ہونے کے بعد اس کو آرٹس اینڈ کلچرل سینٹر بنائیں گے چونکہ پورے ریجن میں آرٹس اینڈ کلچرل موجود نہیں ہے اور اسکو بحال کرکے آرٹس اور کلچرل کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کریں گے۔ ان قدیم ورثوں کو اصلی شکل میں لانے سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ گوادر کی معیشت کے لئے یہ اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ گوادر کی پرانی تاریخ ان قدیم عمارتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
اومانی واچ ٹاور
گوادر شاہی بازار میں موجود اومانی واچ ٹاور سلطنت آف عمان دور میں تعمیر کیا گیا، یہ واچ ٹاور گوادر کے قدیم شاہی بازار میں واقع ہے اور اومانی دور کا ایک قدیم اور تاریخی ورثہ ہے۔
گوادر کے سینئر صحافی بہرام بلوچ لکھتے ہیں کہ گوادد کا شاہی بازار سلطنت آف عمان کے دور کا ایک یادگار اور تاریخی ورثہ ہے، سلطنت آف عمان کے سابق فرمانروا مرحوم سلطان قابوس نے 2004 میں گوادر میں ایک قلعے کی تزئین و مرمت اور میوزم قائم کرنے کیلئے ایک خطیر گرانٹ کا عطیہ دیا تھا، جس میں قلعے کی مرمت کرکے پھر میوزیم کو قائم کیا گیا اور پھر یہ میوزیم حکومت بلوچستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔
گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے بتایا کہ شاہی بازار میں موجود سلطنت آف عمان کے دور میں تعمیر کیا گیا واچ ٹاور کی بحالی بھی اولڈ سٹی بحالی پروجیکٹ میں شامل ہے۔
انجینئر کاشف احمد بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں عمانی واچ ٹاور، پرتگیزی واچ ٹاور، ریسٹ ہاؤس عمارت اور پرانا پوست آفس کی بحالی اور تحفظ کا کام جاری ہے جبکہ ان عمارات کو دوبارہ تزین و آرائش اور مرمت اصلی شکل میں لایا جائے گا۔
گوادر کی قدیم تاریخ سے گہری دلچسپی لینے والا سماجی کارکن کے بی فراق نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ قدیم ورثے گوادر کی تاریخ کا عکاسی کرتے ہیں اور گوادر کے عوام انکے ساتھ گہری رشتہ رکھتے ہیں اور انکے ساتھ جڑے رہے ہیں۔
گوادر کے بعض شہریوں نے ان قدیم ورثے کی بحالی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان ورثوں کی بحالی اور محفوظ بنانے سے گوادر کی قدیم تہذیب و تمدن، تاریخ اور روایات ذندہ رہے گا۔کیونکہ اس سر زمین پر انگری دور سے لیکر اومان دور کے حکمرانی کے آثار ملیں گے۔