پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے متعلق متنازع قانون کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے صحافیوں کا احتجاج تاحال جاری ہے جبکہ دھرنے کے قائدین کی جانب سے آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران بھی احتجاج کے اعلان پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں ملک بھر سے صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے خلاف ریلی نکالی اور پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ میڈیا کے خلاف حکومت کا کالا قانون کسی صورت پاس نہیں ہونے دیں گے۔ شہبازشریف نے آزادی صحافت دھرنے میں جا کر صحافیوں سے ملاقات کی۔ شہبازشریف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نوازشریف کے حکم پر یہاں آئے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ میں ابھی تک میڈیا سے متعلق بل کا مسودہ نہیں لے کر آئی ہے تاہم حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ کالا قانون لانے سے باز رہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا نے خود آزادی حاصل کی ہے اور یہ آزادی ان سے کوئی نہیں چھین سکتا اور یہ جمہوریت اور نظام کی بات ہے۔
شہباز شریف نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کے مشترکا سیشن میں اپوزیشن اس مجوزہ بل پر احتجاج کرے گی اور واک آؤٹ کے بعد دوبارہ دھرنے میں آئیں گے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کریں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں کے احتجاج کیمپ میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ اتھارٹی کے قیام کا قانون ناصرف آزادی صحافت بلکہ جمہوری اقدار کے خلاف کالا قانون ہے۔ انہوں نے مذکورہ قانون کو آزاد عدلیہ پر ’حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں سے ان کی اپیل کا حق بھی چھینا جارہا ہے کیونکہ یہ ایک معاشی ڈاکا ہے جس کے تحت صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی کوشش ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی صحافیوں سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرتی اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں صحافیوں کے مسائل پر آواز اٹھائیں گے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہماری پارٹی ان کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوگی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر مجوزہ قانون پاس ہوتا ہے تو ہماری پارٹی کا پیپلز لیبر بیورو آپ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف جدوجہد کرے گا۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے بھی صحافیوں کے دھرنے میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا کنٹرول کرنے کی سازش کامیاب ہوگئی تو پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی موت واقع ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو کسی کی جاگیر نہیں بننے دیں گے، یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے جہاں آئین کی حکمرانی ہوگی، آزادی صحافت کو محفوظ اور مقدم سمجھا جائے گا۔ احسن اقبال نے کہا کہ میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں جن صحافیوں نے حق بات کرنے کی پاداش میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھویا ہے۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ شُتر مُرغ حقائق کا مقابلہ کرنے کی بجائے ریت میں مُنہ چھپا لیتا ہے، قلم اور کیمرے کو پابند کرنے والی ریاستیں اور سماج ’شتر مرغ ریاستیں اور سماج‘ ہی کہلائیں گی۔
https://twitter.com/SenPervaizRd/status/1437277381845082113
اس سے قبل میڈیا پبلشرز، صحافیوں، براڈکاسٹرز، ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو مسترد کردیا تھا۔ میڈیا تنظیموں نے مجوزہ آرڈیننس کو آزادی صحافت اور اظہارِ رائے کے خلاف غیر آئینی اور سخت قانون قرار دیا ہے۔
آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے، بَرنا گروپ)، پی ایف یو جے (دستور گروپ) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک، میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ رائے تھی کہ مجوزہ پی ایم ڈی اے کا مقصد میڈیا کی آزادی کو روکنا اور انفارمیشن بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
اے پی این ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر اے طاہر کے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت، میڈیا پر اپنی گرفت سخت کرنا چاہتی ہے جبکہ اس نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا کہ پرنٹ، ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کئی اعتبار سے الگ الگ خصوصیات کے حامل ہیں۔