بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کے باعث کرتارپور کاریڈور کا مثبت اقدام ضائع ہو گیا

بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کے باعث کرتارپور کاریڈور کا مثبت اقدام ضائع ہو گیا
کرتار پور کاریڈور کے ساتھ بلاشبہ ایک مؤثر علامتی عمل موجود ہے۔ کرتارپور کوریڈر جو کہ چار کلومیٹر پر مشتمل ہے اور گرودوارا دربار صاحب نارووال کو ڈیری بابا نانک گرداس پور کے ساتھ ملاتا ہے سکھ یاتریوں کو بھارت اور پاکستان میں یاترا کیلئے انتہائی معاون ثابت ہو گا۔ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو نے 18 برس نارووال ڈسٹرکٹ کے علاقے کرتارپور میں بسر کیے اور اس گرودوارے پر گرونانک کی برسی پر بھارت اور پاکستان سے لاتعداد سکھ یاتری درشن کیلئے آتے ہیں۔ اس سال بھارتی زائرین کو 3500 سے زائد ویزہ پاکستان کی جانب سے دیے گئے۔ اور کرتاپور کوریڈور کی افتتاحی تقریب کے دوران پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ کرتار پور کوریڈر بابا گرونانک کی 550 ویں برسی کے موقع پر فعال کر دیا جائے گا۔ یعنی اس کاریڈور کے منصوبے کو سوچنے کے تیس سال بعد آخر کار حقیقت کا روپ دے ہی دیا گیا۔

دشمنی پر مبنی جمود

ایسا خطہ جو مذہبی تناذعات میں گھرا ہوا ہو اور سرحدیں بالکل ایک ساتھ ہوں وہاں کرتار پور کاریڈور کو امن اور صلح کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حقیقت اس نفرت پر مبنی جمود کے ہاتھوں یرغمال ہے جو دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کے درمیان پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے کرتار پور کاریڈور کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سازشی منصوبہ قرار دیا جس کا مقصد سکھوں کی ہمدردیاں جیت کر سکھ علیحدگی پسند تحریک خالصتان کو دوبارہ مستحکم کرنا ہے۔ بلکہ بھارتی میڈیا میں یہ تک کہا گیا کہ اسلام آباد نے جانتے بھوجتے کرتارپور کاریڈور کی افتتاحی تقریب اس وقت رکھی جب ممبئی حملوں کی دسویں برسی منائی جا رہی تھی۔



جہاں آئی ایس آئی پر سکھ علیحدگی پسند تحریک سکھس فار جسٹس کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا ہے وہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کا الزام بھی لگتا ہے۔ کرتارپور کاریڈور کی افتتاحی تقریب سے صرف دو روز قبل پاکستان کی سینیٹ نے بھارت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی جس میں اسے گذشتہ ماہ کراچی میں چینی سفارتخانے پر ہونے والے حملے میں ملوث قرار دیا گیا۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

سرحد پار عسکریت پسندی

بلوچستان اور خالصتان سے زیادہ گھمبیر مدعا کشمیر کا ہے، جو بھارت اور پاکستان میں منقسم ہے، اور اس کے باعث سرحد پار عسکریت پسندی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس سرحد پار عسکریت پسندی کو دونوں ممالک کے کرتا دھرتا اپنے اپنے قومی مفاد کیلئے درست قرار دیکر ایک دوسرے کے خلاف طویل عرصے پر مبنی دشمنی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسلام آباد کرتارپور کاریڈور کے ذریعے بین الاقوامی دنیا سے امن کی کاوشوں کا سہرا اپنے سر لینے کے علاوہ معاملات کے سلجھاؤ میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس کی جھلک اس بات سے عیاں ہے کہ ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ لشکر طیبہ کے چیف حافظ سعید کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ حالانکہ اس سال کی ابتدا میں پاکستان نے حافظ سعید کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا تھا تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں نام نہ آئے لیکن پاکستان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ پاکستانی حکومت کے ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حافظ سعید کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکلنے کی وجہ دہشت گردی کے انسداد کے آرڈًیننس کی معیاد ختم ہونا ہے، لیکن حافظ سعید اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کا اس سال پاکستان کے عام انتخابات میں حصہ لینے کو نقاد اسے پاکستانی ریاست کی جانب سے حافظ سعید کی پشت پناہی گردانتے ہیں۔

جہاں پاکستانی ریاست اپنے کشمیر کے جہاد کے مقصد کی تکمیل کیلئے تیار کردہ اثاثوں سے پیچھا چھڑوانے کیلئے تیار نہیں ہے تاکہ سرحد پار عسکریت پسندی اور منتخب حکومتوں کو ایک ساتھ قابو کیا جا سکے، وہیں بھارتی قیادت بھی مسئلہ کشمیر اور دیگر تنازعوں کے پرامن حل کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ کشمیر میں سٹیٹس کو برقرار رکھنا ہمیشہ سے بھارت کی روایتی حکمت عملی رہی ہے۔

سرحد کے دونوں اطراف موجود ہیجانی کیفیت

بھارت میں عام انتخابات کے انعقاد میں محض 6 ماہ کا عرصہ باقی ہے اور پاکستان مخالف انتخابی نعروں پر مبنی انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔ بالکل اسی قسم کی بھارت مخالف انتخابی مہم پاکستان میں جولائی کے عام انتخابات کے دوران بھی دیکھنے کو ملی تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کرتارپور کی افتتاحی تقریب میں پاکستانی دعوت نامے کو مسترد کر دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بھارت سارک ممالک کی کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا اگر یہ کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی۔ انہوں نے اسلام آباد کو بھارت میں دہشت گردانہ سرگرمیاں روکنے کیلئے بھی کہا۔

بھارت کے ہاؤسنگ کے شعبے کے وزیر ہردیپ پوری اور وزیر خوراک ہرشمت کور بادل کرتاپور کاریڈور کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے جس میں دونوں ممالک کے سفارتکار اور صحافیوں نے بھی شرکت کی تھی۔ دونوں ممالک کے اہم افراد کے درمیان خوشگوار جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ بالخصوص وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور مشرقی پنجاب کے وزیر برائے ثقافت اور ٹرانسپورٹ نوجوت سدھو کے درمیان شگفتہ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ سدھو نے عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی جس کے باعث انہیں بھارت میں کئی حلقعوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھارت امن کیلئے ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ اس قسم کے دوروں کو لیکن مصنوعی اقدامات کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو دونوں ممالک کے مابین موجود چپقلش اور جنگی جنون کو کرتارپور کاریڈور کی افتتاحی تقریب کی مدد سے کم یا ختم نہیں کر سکتے۔ دونوں ممالک کے تجزیہ نگاروں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔

سرد مہری کے خاتمے کیلئے اقدام کی عدم موجودگی

یہ ایک رسمی اقدام ہے، اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سرد مہری کو ختم نہیں کر سکتا۔ یہ اس سرد مہری کو ختم کرنے کیلئے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا تھا لیکن بھارتی حکومت کے سرد مہر رویے کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان ٹوڈے کے ادارتی شعبے کے مدیر شہاب جعفری کے مطابق بھارت میں عام انتخابات کے منعقد ہونے تک وہاں سے اسی قسم کا ردعمل آئے گا۔ جعفری دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں فی الحال کوئی تبدیلی نہیں دیکھ رہے لیکن مستقبل میں ایسا ہونے کے امکان کو رد بھی نہیں کر رہے۔ ان کے مطابق ان معاملات کے بارے میں کوئی حتمی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔

"مثال کے طور پر مودی حکومت نے کرتارپور کاریڈور کو کھولنے کی اجازت دی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ کم سے کم ان کے اقدامات سے تو یہی لگ رہا ہے۔ اور اس بار شاید ’خلائی مخلوق‘ بھی یہی چاہتی ہے"۔

امید کی کرن

کرتارپور کاریڈور کو محض سکھوں نے ہی نہیں سراہا بلکہ اس اقدام کو ان تمام افراد نے سراہا ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین پرامن تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں۔ تریویدیش سنگھ میانی کے مطابق دونوں اطراف کے لوگوں کا ایک دوسرے سے میل جول ایک بہتر تعلقات پر مبنی رشتے کی بنیاد بن سکتا ہے اور ان گروہوں کی مدد کر سکتا ہے جو دونوں ممالک کے مابین امن کیلئے کوشاں ہیں۔ پھر بھی یہ بہت ضروری ہے کہ اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔ گو یہ سکھ برادری اور دونوں اطراف کے پنجاب کے صوبوں کیلٙے انتہائی اہم قدم ہے لیکن اس کاریڈور کو دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کے پس منظر کے بنا نہیں دیکھا جا سکتا"۔

"تجزیہ نگار ان مسائل کو دیکھتے ہیں جن کا تعلق دہشت گردی، کشمیر یا دیگر تنازعوں سے ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں زیادہ بااثر نہیں ہیں۔ کیونکہ موجودہ لابیوں کا تنازعوں پر مبنی بیانیے تشکیل دینے سے بہت بڑا مفاد جڑا ہوا ہے۔ باہمی تعلقات پر بااقتدار سیاسی جماعتوں کے علاوہ مزید عناصر بھی اثر انداز ہوں گے۔ گو ابھی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن عمران خان نے ابھی تک کچھ مثبت اقدامات ضرور اٹھائے ہیں اور بھارت میں 2019 کے عام انتخابات کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کی امید کی کرن کا امکان موجود ہے"۔

’خارجہ پالیسی عمران خان کے تابع نہیں ہے‘

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور دی ڈپلومیٹ کے نمائندے عمیر جمال کا کہنا ہے کہ کرتار پور کاریڈور کے افتتاح سے سیر حاصل امن کے مذاکرات کا آغاز نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق دونوں ریاستیں اس کاریڈور سے اندرونی سیاسی سطح پر فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ بے جی پی کی حکومت اگلے انتخابات پر دھیان مرکوز رکھے ہوئے ہے اور کرتارپور کاریڈور کی اجازت اسی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ جبکہ پاکستان اس کاریڈور کے ذریعے نئی دہلی کو یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ وہ پرامن مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے۔ پاکستانی حکام اس امر سے واقف ہیں کہ مودی سرکار اس کاریڈور کے علاوہ اگلے عام انتخابات سے قبل مذاکرات کے آغاز کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔



کرتارپور کاریڈور کو دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی فضا بحال کرنے کیلئے ایک مثبت اقدام قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ گیم چینجر ہرگز بھی نہیں ہے۔ اس کے ذریعے کسی بھی ایسے بنیادی مسئلے کو نہیں چھیڑا گیا ہے جو دونوں ممالک کے مابین دشمنی کی اصل وجہ ہو۔ بھارت پاکستان سے سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کا خواہاں ہے۔ جبکہ پاکستان نئی دہلی سے توقع کرتا ہے کہ یہ کشمیر پر اپنی پالیسی کو تبدیل کرے گا۔ پانی کے مسائل اور خطے میں اس کے کردار بالخصوص افغانستان کے حوالے سے بھی بھارت اپنی سوچ میں تبدیلی لائے گا۔ جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا نئی دہلی کی سرکار پاکستان کی منتخب حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنا چاہتی ہے کیونکہ عمران خان کے پاس ملک کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار نہیں ہے اور پاکستان میں فوجی قیادت میں تبدیلی سے پاکستان کی بھارت دوارے پالیسی راتوں رات بدل سکتی ہے۔

’دہشت گردی کمرے میں ہاتھی کی موجودگی کےمانند ہے‘

ٹائمز آف انڈیا کے اسسٹنٹ ایڈیٹر آرتی ٹکو سنگھ کے مطابق "کمرے میں سب سے بڑا ہاتھی پاکستان کا بھارت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی پشت پناہی کرنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بار بار تنبیہہ اور امریکی امداد کی منسوخی اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کو مالی معاونت فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے باوجود پاکستان کی اس پالیسی میں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ لشکر طیبہ، جیش محمد، اور حزب المجاہدین کے ٹریننگ کیمپ ابھی بھی پاکستان میں موجود ہیں اور یہ تنظیمیں ابھی بھی فعال ہیں۔ ان تنظیموں کے سربراہ نہ صرف مکمل طور پر آزاد ہیں بلکہ ریاست کی جانب سے انہیں مکمل تائید حاصل ہے۔ پاکستان نے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنے اور اسے سزا دینے کے ضمن میں کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے ہیں"۔

آرتی ٹکو سنگھ کے خیال میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان یا ہندوستان میں کون سی جماعت برسر اقتدار ہے اور دونوں ممالک کے مابین موجود اصل مسائل کو حل کرنے میں یہ امر معاون ثابت نہیں ہوتا۔ "وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سویلین حکومت اور فوجی قیادت کے مابین مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ عمران خان کی حکومت دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی لانے کا باعث بن سکے۔ بھارت میں ہونے والے عام انتخابات پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے برعکس بھارت تقسیم کے بعد سے اب تک ایک مضبوط جمہوریت کا حامل رہا ہے لیکن انتخابات پھر بھی دونوں ممالک کے تعلقات بہتر کرنے پر اثر انداز نہیں ہو سکے"۔

’بھارت میں نیم فسطائیت موجود ہے‘

سینئیر سیاسی تجزیہ نگار اور اردو ویب سائٹ ہم سب کے خالق اور مدیر وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو اب دکھاوے سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ "یہ دکھاوے کے اقدامات پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتکاری کے بنیادی اصول تبدیل نہیں کر سکتے۔ ماضی سے اس ضمن میں متعدد مثالیں موجود ہیں جب کشمیر میں محدود آمدورفت کی اجازت دی گئی تھی جس کا خواب ہم 1974 سے سمجھوتہ ایکسپریس کے شروع ہونے سے دیکھ رہے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین ایک بنیادی فرق موجود ہے اور وہ طرز سیاست کا ہے۔ دونوں ممالک کے معاشی حالات بھی مختلف ہیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی اور دیگر مسائل حل کرنے کیلئے ذاتی فوائد کے حصول سے نکل کر قومی سپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کو اب آگے جانے کی ضرورت ہے نہ کہ مسئلہ کشمیر کے قیدی بن کر ماضی میں مقید رہنے کی۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب دونوں ممالک کے مابین اس طرح کی معاشی برابری موجود نہیں ہے جو کہ 90 کہ دہائی تک کسی نہ کسی صورت برقرار تھی۔ بھارت اب ایک مستحکم اور مضبوط معیشت ہے جس کے باعث عالمی برادری بھارت اور پاکستان کو ایک جیسے پلڑے میں نہیں تولتی"۔



وجاہت مسعود کے خیال میں بی جے پی کی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بی جے پی کی سیاسست شدت پسندی اور استحصال پر مبنی ہے۔ بھارت میں اس وقت نیم فسطائیت کا راج ہے۔ بی جے پی کی نسل پرست سیاست کا انداز پاکستان میں موجود فرقہ وارانہ شدت پسند تنطیموں سے جدا نہیں ہے۔

’بی جے پی سدھو کو پاکستان سے انتخابات لڑنے کیلئے کہے گی

ہری لال راجا گوپال جو کہ ایک ملیالم اخبار کے ادارتی سیکشن کے مدیر ہیں ان کے مطابق دونوں ریاستوں کو ہر اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے جو دونوں ریاستوں کو قریب لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے بلاشبہ ہمیں ہر اس موقع سے فائدہ جاصل کرنا چاہیے جو تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

"اصل مسئلہ بداعتمادی کی فضا ہے۔ ہمیں کشمیر کے گرد گھومتے جذباتی ماحول کے درجہ حرارت کو کم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کے لئے بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان فوجی تسلط سے نکل کر ایک مضبوط جمہوریت بن جائے۔ مودی حکومت کے بھارت میں دوبارہ برسر اقتدار آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہم یہاں تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں"۔

امپتا واجپائی ہندی اخبار دائنیک بھاسکر کے خصوصی نمائندے ہیں اور اس تشکیک پرستی کو یوں بیان کرتے ہیں:

" کرتارپور کاریڈور کے ذریعے امن بحالی میں مدد ملنے کے امکانات بیحد کم ہیں۔ اصل تنازع کشمیر کی سرحد پر ہے۔ پنجاب کی سرحد دونوں ممالک کے مابین پرامن ہے۔ اصل مسئلہ دہشت گردی ہے۔ پاکستان کو اپنی سرزمین پر پنپنے والی دہشت گردی کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسے دہشت گردی کا قلعہ قمع کر کے بھارت کے ساتھ خود اپنی بھی مدد کرنا ہو گی۔ اسے اپنی کاوشوں میں صداقت اختیار کرنی پڑے گی"۔

امپتا واجپائی اس بات سے متفق ہیں کہ بی جے پی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

"بی جے پی اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط جماعت کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایسے اقدامات ابھی تک نہیں اٹھائے ہیں جن کا براہ راست تعلق بھارتی سرکار کے ساتھ ہے۔ یہ شاید بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھیلنے کیلئے ہیں۔ اسے کانگریس کے خلاف اگلے انتخابات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ وقت کیلئے انتظار کیجئے، آپ بی جے پی کے رہنماؤں کو سدھو کو یہ کہتے ہوئے دیکھیں گے کہ جا کر پاکستان سے انتخابات میں حصہ لو"۔

مصنف لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی جریدوں کے لئے لکھتے ہیں۔