گوادر پورٹ کے قیام سے مقامی لوگوں کے ساتھ روزگار کے وعدے پورے نہیں کیے گئے، سینیٹ قائمہ کمیٹی میں انکشاف

گوادر پورٹ کے قیام سے مقامی لوگوں کے ساتھ روزگار کے وعدے پورے نہیں کیے گئے، سینیٹ قائمہ کمیٹی میں انکشاف
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سمندری امور کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نزہت صادق کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گوادر پورٹ پر مقامی سروسز فراہم کرنے والوں کے تحفظ کے حوالے سے عوامی عرضداشت کے علاوہ مالی سال 2020-21 کیلئے وزارت سمندری امور کی طرف سے پی ایس ڈی پی کیلئے تجاویز کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے گوادر پورٹ پر مقامی سروسز فراہم کرنے والوں کے تحفظ کے حوالے سے عوامی عرضداشت کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جب گوادر پورٹ کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ مقامی آبادی کیلئے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ مستقبل میں یہ مسائل مزید بڑھیں گے۔

حکومت ایک پالیسی واضع کرے جس میں مقامی لوگوں کو روزگار کے حوالے سے ترجیح دی جائے۔

چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار ملنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ابھی کاروبار کم ہے مستقبل میں کاروبار بڑھے گا۔ اس حوالے سے بریف بنایا ہے کہ گوادر کو مکمل آپریشنل بنایا جائے اور کاروباری محرکات میں اضافہ ہو سکے۔ ابھی وہاں مقامی لوگوں سے کام لیا جا رہا ہے۔

چیئرمین گوادر پورٹ نے قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ مقامی لوگوں کو ترجیح دی جائے گی۔

وفاقی وزیر سمندری امور علی حیدر زیدی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گوادر پورٹ کو زیادہ سے زیادہ ملکی اور عوامی مفاد میں بنانے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی زمین کسی کو مفت میں نہیں دی جائے گی بے شمار اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور مقامی افراد کو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے کیلئے لوگوں کی ٹریننگ کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میرین اکیڈمی(پی ایم اے) کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا۔ ڈپلومہ کی جگہ چار سالہ ڈگری کا پروگرام شروع کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلیو اکانومی ملکی معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے اور ملک کی مجموعی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس سے مستفید ہونے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 33 وظائف 5.25 لاکھ فی بچہ کے لئے ہیں، اُن میں سے 50 فیصد صوبہ بلوچستان کیلئے ہیں جس میں بچوں کو کراچی میں تربیت دی جائے گی۔

سینیٹر کہدہ بابر نے انکشاف کیا کہ چار ہزار سولر سسٹم گوادر پورٹ اتھارٹی کے پاس پڑے ہیں مگر اُن کو استعمال نہیں کیا گیا۔ چیئرمین گوادر پورٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ کسٹم کلیرنس میں تاخیر کی وجہ سے تقسیم نہیں ہو سکی، ایسٹ بے کے ماہی گیروں کا سروے کروا لیا ہے، غریب سے غریب لوگوں کو سولر سسٹم دیئے جائیں گے۔

وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے تجویز دی کہ احساس پروگرام سے ڈیٹا حاصل کر کے جلد سے جلد تقسیم کئے جائیں۔

قائمہ کمیٹی کو وزارت سمندری امور کی طرف سے مالی سال 2020-21 کیلئے تجویز کردہ پی ایس ڈی پی منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 6 جاری اور 9 نئے منصوبے ہیں، جاری منصوبوں میں سے ایسٹ بے پر کام 56 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔

گوادر پورٹ پر سپورٹ یونٹ کا منصوبہ جون 2021 میں مکمل ہو گا، پاک چائنا ٹینکل اینڈ ویکشنل انسیٹیوٹ جو 2 ارب کی گرانڈ کا منصوبہ ہے دسمبر 2021 میں مکمل ہو گا جو مقامی ورک فورس بنانے میں اہم ثابت ہو گا۔ کمیٹی کو 9 نئے منصوبوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز کہدہ بابر اور ستارہ ایاز کے علاو ہ وفاقی وزیر وزارت سمندری امورعلی حیدر زیدی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نصیر خان کاشانی اور وزارت سمندری امور کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔