Get Alerts

رواں مالی سال پاکستانی معیشت کی شرح نمو 1.7 فیصد بڑھے گی: عالمی بینک

عالمی بینک کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ، کابینہ کے ارکان، وزرائے خزانہ، کابینہ کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے ممبران ٹیکس پالیسی کو مرتب کرنے میں شدید اثر  و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو اصلاحات کو روکتا ہے۔

رواں مالی سال پاکستانی معیشت کی شرح نمو 1.7 فیصد بڑھے گی: عالمی بینک

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ خسارہ رواں اور آئندہ مالی سال بلند سطح پر رہے گا جس وجہ سے عوام کو رواں مالی سال مہنگائی میں بڑا ریلیف نہیں مل سکتا۔ جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 3.5 فیصد کے سرکاری ہدف کے مقابلے 1.7 فیصد بڑھے گی.طویل المعیاد بنیادوں پربحالی کیلیے اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔

عالمی بینک کی جانب سے” پاکستان ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ“  کے نام سے رپورٹ جاری کر دی۔

رپورٹ میں کہا گیا  ہے  کہ مالی سال 2023 میں پاکستان کی معیشت سست روی کاشکاررہی جس کی وجہ سے پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی 0.6 فیصد تک سکڑنے کااندازہ ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان کو قرضے کے بوجھ کے حامل غریب ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کا 2027 تک قرضہ جی ڈی پی کے 89.3فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ 2022 کا بدترین سیلاب ، درآمدات اور سرمائے کے بہاؤ پر پابندیاں ، بیرونی دباؤ، عالمگیرافراط زر اور سخت عالمی فنانسنگ کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں میں کمی آئی۔

مشکل معاشی حالات کے ساتھ ساتھ توانائی اور خوراک کی بلند قیمتوں، کم آمدنی اور 2022 کے سیلاب کی وجہ سے فصلوں،املاک اور لائیواسٹاک کے نقصانات سے غربت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

رواں مالی سال میں غربت کی شرح 39.4 فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جو مالی سال 2022 میں 34.2 فیصدکے قریب تھا۔

پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن نے بتایا کہ کلی معیشت کے استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے محتاط معاشی انتظام اور دوررس ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اشیائے خوراک اورتوانائی کی بلندقیمتوں، شدید ماحولیاتی واقعات، عوامی اخراجات اورانسانی سرمایہ کاری کیلیے وسائل کی کمی کے تناظرمیں اصلاحات ضروری ہیں  تاکہ جامع اورپائیدارترقی اورنموکیلیے مطلوبہ گنجائش نکل سکے۔

عالمی بینک کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ، کابینہ کے ارکان، وزرائے خزانہ، کابینہ کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے ممبران ٹیکس پالیسی کو مرتب کرنے میں شدید اثر  و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو اصلاحات کو روکتا ہے۔

سبسڈیز میں کمی کیلئے مجموعی ٹیکس اقدامات کیے جائیں اور سالانہ بنیادوں پر دو ہزار 723 ارب روپے مالی خسارے میں کمی لانے کیلئے اخراجات کو کم کیا جائے۔

حکام عالمی بینک کے مطابق پاکستان کا میکرو اکنامک آؤٹ لک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے اور اصلاحات مؤثر عملدرآمد پر انحصار کرتا ہے۔مختصر مدت کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ اور آئی ایم ایف سٹینڈ بائی معاہدے، مارکیٹ کی بنیاد پر کرنسی کی قدر کا تعین ، مانیٹری و مالیاتی پالیسی پر عملدرآمد میکرو اور سیاسی و پالیسی عدم استحکام میں کمی سے اکنامک استحکام آسکتا ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور وسیع البنیاد اصلاحات کے نفاذ کے بغیرپاکستان اندرونی اوربیرونی جھٹکوں کے خطرات کی زدمیں رہے  گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سٹینڈ بائی ایگری منٹ کے برق رفتارنفاذ ، نئی بیرونی مالیات اورمالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو1.7 فیصد اورمالی سال 2025 میں 2.4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس صورتحال کے تناظرمیں وسطی مدت تک کیلیے اقتصادی نمو استعداد سے کم  رہے گی تاہم سرمایہ کاری اوربرآمدات میں بہتری آئے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ نئی بیرونی معاونت سے درآمدات میں نرمی کی وجہ سے حسابات جاریہ کے کھاتوں خسارہ وسیع ہوجائے گا ، کمزورکرنسی اورتوانائی کی قیمتوں میں اضافے سے افراط زرکا دباؤ برقراررہنے کاامکان ہے۔

مالی استحکام برقراررکھنے سے پرائمری خسارہ کم ہونے کا امکان ہے تاہم قرضوں پرسودکی ادائیگی کی وجہ سے مجموعی خسارے میں معمولی کمی متوقع ہے۔ پاکستان کا اقتصادی منظرنامہ لیکویڈٹی کے چیلنجوں ، قرضوں کی ادائیگی اوربیرونی جھٹکوں سے مشروط  ہے۔

عالمی بینک سے وابستہ ماہراقتصادیات عروب فاروق نے بتایا کہ ٹیکس پالیسی میں جامع اصلاحات، عوامی اخراجات کومعقول بنانے، سرکاری قرضوں کے بہترانتظام وانصرام اورمالیاتی مسائل پرمضبوط بین الحکومتی رابطہ کاری کے ذریعے کلی معیشت کے چیلنجوں سے نمٹاجاسکتاہے۔ 

انہوں نے کہاکہ طویل المعیاد بنیادوں پربحالی کیلیے اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔

رپورٹ میں وسطی مدت کیلیے بحالی کو یقینی بنانے کیلیے ٹیکسوں میں چھوٹ کے خاتمے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، زرعی شعبہ، ری ٹیلرز اورپولٹری کوٹیکس نیٹ میں لانے، زرتلافیوں کے خاتمے کے ذریعے سرکاری اخراجات میں کمی، توانائی کے شعبہ میں مالیاتی موزونیت اورسرکاری کاروباری اداروں میں نجی شعبے کی شمولیت کی سفارش کی گئی ہے۔