بیٹیوں کو بااختیار بنانا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے

میری نظر میں بیٹیوں کے لیے اپنی محبت اور حمایت کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ انہیں تعلیم تک مساوی رسائی فراہم کرنا ہے اور انہیں میراث میں حصہ دینا ہے۔ خاص کر تعلیم ایک طاقتور ذریعہ ہے جو لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بااختیار بنا سکتا ہے۔

بیٹیوں کو بااختیار بنانا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے

پاکستانی ثقافت میں اولاد کو اللہ کی طرف سے ایک نعمت سمجھا جاتا ہے اور اس میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔ بیٹیاں خاندان میں خوشی اور مکمل ہونے کا احساس لاتی ہیں۔ ان کی ہنسی، معصومیت اور محبت ان کے والدین اور بہن بھائیوں کی زندگیوں کو سنوار دیتی ہے۔ میرے خیال میں تو گھر کی رونق بیٹیوں سے ہوتی ہے۔ پاکستانی ثقافت میں خاندانی اقدار اور روایات کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان اقدار میں، اپنے بچوں کی محبت اور دیکھ بھال سب سے اہم ہے۔

خاص طور پر بیٹیوں سے محبت ایک ایسا موضوع ہے جو خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اپنی بیٹیوں کی پرورش کی اہمیت پر زور دینا ضروری ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گی۔ پاکستان میں، دنیا کے کئی حصوں کی طرح، بیٹیوں کو اکثر منفرد چیلنجوں اور سماجی توقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ دنیا میں تمہیں کون سے لمحات اللہ اور رسولﷺ کی یاد کے بعد پسند ہیں تو میرا جواب میرے بچوں خاص کر چھوٹی بیٹی ځلا کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہوں گے جس کا میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اکثر و بیشتر کرتا ہوں اور یہ اظہار نہ چاہتے ہوئے ہوتا ہے جس پر مجھے شاید کچھ لوگ برا بھی تصورکریں لیکن مجھے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں ہے کیونکہ میں اُن لوگوں میں سے ہوں جو دوسروں کی پروا نہیں کرتے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات سے زیادہ شاید ہی کوئی اچھے لمحات دنیا میں آپ کو ملیں۔ مجھ سے بڑی بیٹی کا گلہ ہے کہ اسے اتنا پیار نہیں دیا گیا جو چھوٹی کو دیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ ہم اس وقت معاشرے کے کچھ رواجات اور روایات کی پاسداری کر رہے تھے جو کہ دقیانوسی رواجات اور روایات ہیں کہ بیٹیوں اور بیٹوں کو پیار نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت شرم محسوس کی جاتی تھی کہ گھر والے کیا کہیں گے جو کہ آج بھی ہمارے پختون معاشرے میں بہت سے خاندانوں میں اس کا پرچار کیا جاتا ہے جن کو میں سب سے بڑے جاہل مطلق سمجھتا ہوں جو اس بات پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔

میں ایسے والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ پھر بعد میں پچھتانا پڑے گا جب آپ کی معصوم کلی آپ کا گھر چھوڑ کر کسی اور کے گھر کی روشنیوں میں اضافہ کرے گی۔ اس لئے تو مجھے سب سے بہترین لمحات اپنی بیٹی کے ساتھ ہی لگتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ بڑی ہو جائے۔ وہ چھوٹی ہے تو ٹھیک ہے، اگر بڑی ہو گئی تو وہ ہماری نہیں رہے گی کیونکہ قانون فطرت ہے کہ بیٹیوں کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے اور یہ سب سے مشکل کام ہے کہ ایک لڑکی اپنا سب کچھ، اپنا خاندان، اپنا گھر، والدین اور سب سے بڑھ کر وہ یادیں جو اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں وہ چھوڑ کر دوسرے گھر میں آباد ہو جاتی ہے اور ایک بھرے ہوئے گھر کو ویران کر جاتی ہے۔

اگر کبھی کسی مرد کو کہا جائے کہ وہ سب کچھ چھوڑ دے اور دوسرے گھر میں شفٹ ہو جائے تو بہت ہی مشکل فیصلہ ہوگا۔ شاید ہی دنیا کے ایک فی صد مرد بھی اس بات پر راضی ہو جائیں مگر دنیا بھر میں یہ ہورہا ہے کہ عورت کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ سمجھنا سب سے زیادہ اہم اور ازحد ضروری ہے کہ بیٹیوں کے تئیں مثبت جذبات کے باوجود، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پاکستان، بہت سے دوسرے معاشروں کی طرح، تاریخی طور پر روایتی صنفی کرداروں اور پدرانہ اصولوں سے دوچار ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں اب بھی فرسودہ رسوم و عقائد کی باقیات ہیں جنہوں نے بیٹیوں کے مواقع اور حقوق کو محدود کر رکھا ہے۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں اب بھی انہیں تعلیم اور دیگر حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جس میں سب سے برا طریقہ انہیں وراثت سے محروم کرنا ہے اور یہ ہمارے پختون معاشرے کا بھی حصہ ہے۔ ہم اُن کی شادیوں پر لاکھوں خرچ کر کے بری الزمہ ہو جاتے ہیں مگر انہیں وراثت میں پھر کوئی حصہ نہیں دیتے۔

انہیں تعلیم کے حق سے اب بھی محروم کیا جاتا ہے اور میری نظر میں بیٹیوں کے لیے اپنی محبت اور حمایت کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ انہیں تعلیم تک مساوی رسائی فراہم کرنا ہے اور انہیں میراث میں حصہ دینا ہے۔ خاص کر تعلیم ایک طاقتور ذریعہ ہے جو لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بااختیار بنا سکتا ہے۔ دوسری طرف بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو خود مختار اور خود انحصار ہونے کی ترغیب دینا بھی محبت کے اظہار کا ایک اور طریقہ ہے۔ پاکستانی والدین اپنی بیٹیوں کو فیصلے کرنے، کیریئر بنانے اور ان کے جذبات کی پیروی کرنے کی اجازت دے کر آزادی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

آزادی خاندان کے اندر محبت کو کم نہیں کرتی۔ بلکہ، یہ بیٹیوں کو اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر تلاش کرنے کی اجازت دے کر اس میں اضافہ کرتی ہے۔ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر بیٹی کو کسی بھی مشورے میں شامل نہیں کیا جاتا، نہ کسی فیصلے پر ان کی کوئی حمایت کی جاتی ہے۔ انہیں ہمیشہ ناقص العقل ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ان پر اپنی ترجیحات مسلط کر دی جاتی ہیں۔ کم از کم جب وہ آپ کے اپنے گھر کا حصہ ہو تو تب تو اپنی زندگی میں بیٹی کے انتخاب کا احترام کرنا چاہئیے۔ چاہے اس کا تعلق تعلیم، کیریئر یا شادی سے ہو یہ بہت ضروری ہے۔ سب والدین خاص کر باپ کو چاہئیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے فیصلوں کی حمایت کریں اور اپنی ترجیحات مسلط کرنے کے بجائے رہنمائی فراہم کریں۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف والدین اور بیٹی کے رشتے کو مضبوط کرے گا بلکہ بیٹیوں کو باخبر انتخاب کرنے کا اختیار بھی دے گا۔

جہاں جہاں اور جس میدان میں بیٹیوں پر اعتماد کیا گیا ہے وہاں انہوں نے مایوس نہیں کیا بلکہ خواتین نے اُن دقیانوسی تصورات کو توڑا ہے اور سیاست، کھیل اور تفریح سمیت مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ رول ماڈل نوجوان لڑکیوں کو خود پر اور اپنی صلاحیتوں پر یقین دلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب والدین خاص کر باپ اپنی بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ بڑے خواب دیکھیں اور روایتی صنفی کرداروں سے آزاد رہیں تو ہی وہ آزاد پنچھی کی طرح اُڑنا سیکھیں گی۔ والدین کا بانڈ بیٹیوں کے ساتھ تاعمر کے لئے مربوط رکھنے کے لئے انہیں بچپن سے ہی پیار دینا چاہئیے اور ان کی بیٹیوں کے درمیان محبت بچپن اور جوانی تک پھیلی ہونی چاہئیے۔ بیٹیاں اکثر اپنے بوڑھے والدین کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والی ہوتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بچپن کے دوران بننے والا رشتہ زندگی بھر مضبوط رہتا ہے۔

اپنی بیٹیوں سے پیار کرنا اور ان کی پرورش کرنا صرف ایک ثقافتی قدر نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ بیٹیاں قوم کا مستقبل ہیں اور ان کی خوشیاں، خوشحالی اور کامیابی ہر خاندان کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے۔ انہیں مساوی مواقع فراہم کر کے، ان کے انتخاب کی حمایت کر کے، اور ان کی آزادی کو فروغ دے کر، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں ترقی کی منازل طے کریں اور ایک زیادہ ترقی پسند اور جامع پاکستان میں اپنا حصہ ڈالیں۔ آئیے ہم بیٹیوں کے قیمتی تحفے کی قدر کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ نہ صرف بیٹیوں کے طور پر ان کے کرداروں کے لیے بلکہ ان قابل ذکر افراد کے لیے بھی قابل قدر ہیں جو وہ ہیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔