‏بچوں کی تربیت اور آج کل کے والدین

‏بچوں کی تربیت اور آج کل کے والدین
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

ڈیجیٹل دور کے ڈیجیٹل بچے، معصومیت سے عاری، سوشل میڈیا کے عادی، ڈیجیٹل گیمز اور یوٹیوب کی لت میں پڑے یہ شگفتہ پھول مرجھا رہے ہیں۔

آج میرا مقصد اس کالم کی بساط سے معاشرے کے سنگین پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جہاں ہر طرف تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس دل گرفتہ صورتحال کے سبب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو انگریزوں کی تقلید اور غلامی و محکومیت کے عادی ذہن وراثت میں دے رہے ہیں۔

دور جدید میں ہر گھر میں انٹرنیٹ اور کیبل موجود ہے اور بچوں پر توجہ دن بہ دن گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ اگر بچوں کی پرورش کی بات کی جائے تو ایک وقت تھا کہ مائیں دوران حمل قرآن کی تلاوت اور اسلامی احکامات سنا کرتی تھیں اور آج ایک وقت ہے کہ مائیں ٹک ٹاک، نیٹ فلیکس اور سوشل میڈیا میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد اکثر گورنمنٹ جاب ہولڈر مائیں بچوں کو ملازموں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیتی ہیں اور خود بے فکر ہو جاتی ہیں جس بچے کے اندر چڑچڑا پن آ جاتا ہے پھر جو وقت ماں کے پاس بچتا ہے اس میں بھی بچے کے ہاتھ میں موبائل دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے جس کے بچہ موبائل کا عادی ہو جاتا ہے پھر نہ تو اس کی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی عادت چھوٹتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس دور میں ہر بچہ پڑھائی سے دور بھاگ رہا ہے۔ مانا کہ بہت سہولتیں موجود ہیں مگر اس کے باوجود تعلیم سے دوری مقدر بن چکی ہے۔

آج کل سولہ سالہ لڑکی کی فحش فلمیں دیکھنے اور چھوٹے بھائی سے تعلقات ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ جدید والدین بچوں کی تربیت کرنے سے قاصر ہیں۔

جناب اقبال کی دور اندیشی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کئی سال پہلے اس منظر کی پیشین گوئی ان الفاظ میں کی تھی کہ:

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

ظاہری بات ہے کہ جب بچے انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کی دنیا سے باہر نہیں نکلیں گے تو ان کی تربیت بھی تو پھر یہی چیزیں کریں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے اس اسلام جمہوریہ پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی عروج پر ہے جس کی وجہ سوشل میڈیا اور کم عمری میں بچوں کا اس سے منسلک ہونا ہے۔

کہا جاتا ہے ک بچے تو کوئلے کو بھی چمکتی چیز سمجھ کے پکڑ لیتے ہیں تو یہ ذمہ داری تو والدین کی ہے کہ انہیں کوئلے اور موتی کا فرق بتایا جائے۔ خدارا! اپنے بچوں کے ساتھ وفا کریں انہیں کم عمری میں ان چیزوں کے قریب مت جانے دیں اور مت بنائیں اتنے فاصلے کہ آپ ہی کا بچہ غلط کاموں میں پڑ کے اپنی زندگی تباہ کر لے۔ ہمارے ملک میں عینکوں کا استعمال آئے روز بڑھ رہا ہے کیونکہ زیادہ دیر سکرین کے استعمال سے آنکھوں کا متاثر ہونا لازم امر ہے۔

اپنے بچوں کو اخلاقیات سکھائیں۔ انہیں معاشرے کا ذمہ دار شہری بنائیں اور خدارا جدت کے چکر میں بچوں سے غافل نہ ہوں اور زمانے میں ایسی ساکھ مت بنائیں کہ میرا بچہ تو بڑا ٹیکنالوجی کو جانتا ہے، وہ تو ابھی سے موبائل فون کے ہر فیچر سے واقف ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں۔  عبید اللہ علیم کا شعر ملاحظہ ہو:

کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

مصنفہ سے ٹوئٹر پر @iamhumera_ پہ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔