کیا مدارس میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے؟ 

کیا مدارس میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے؟ 
اسلام آباد : جمعیت علمائے اسلام لاہور کے نائب امیر اور جامعہ منظور الاسلامیہ کے  مفتی عزیز الرحمٰن کے اپنے طالب علم کے ساتھ مبینہ بدفعلی کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا اور ان کو گزشتہ روز بیٹے سمیت میانوالی سے گرفتار کیا گیا۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے جبکہ کچھ ایسی رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص مدارس کے اندر موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان اظہر مشوانی نے سوشل میڈیا پر چلنے والے رپورٹس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پنجاب میں مدارس کے اندر موبائل فون کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔

نیا دور میڈیا نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی سچائی جاننے کے لئے مختلف زرائع سے معلوم کیا ہے کہ واقعی مدارس میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے یا یہ خبریں بے بنیاد ہے۔

نعیم (فرضی نام) کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ گزشتہ چھ سال سے اسلام آباد کے جامعہ فریدیہ میں طالب علم ہے۔ انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ مدارس میں کیمرہ رکھنے والے موبائل فون پر شروع سے پابندی ہے اور مدارس کے حدود میں صرف آپ بغیر کیمرے موبائل استعمال کرسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کیا مدارس کے اندر موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے کوئی نئے احکامات آئے ہیں جس پر انھوں نے نفی میں جواب دیا۔

وفاق المدارس اسلام آباد کے ترجمان سے جب اس حوالے سے نیا دور میڈیا نے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وفاق المدارس نے موبائل فون پر پابندی کے حوالے سے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا اور نہ کوئی پابندی لگائی ہے۔ وفاق المدارس کے ترجمان نے موقف اپنایا کہ موبائل فون پر پابندی پریکٹیکلی آج کے دور میں ممکن نہیں کیونکہ موبائل بذات خود بری چیز نہیں اس کے غلط استعمال پر  مدارس اور اساتذہ کرام اپنے طور پر وقتا فوقتاً طلبہ کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ موبائل کا ذیادہ استعمال نہ کریں جس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ متاثر ہو۔

عثمان وسیم (فرضی نام) کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور گزشتہ دو سال سے لاہور کے دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ کیمرے کے موبائل پر مدارس میں پابندی ہے لیکن کچھ  طالب علم خاموشی سے کیمرے والا موبائل استعمال کرتے ہیں۔ عثمان کہتے ہیں چھٹی والے دن طالب علم جب باہر جاتے ہیں تو ویڈیو کال پر گھر والوں سے رابطہ کرتے ہیں اور تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب سے لاہور مدرسے کا واقع پیش آیا ہے مدرسے میں موبائل فون کے نہ استعمال کرنے کے حوالے سے اور اساتذہ کے احترام پر ترغیب شروع کی گئی ہے جبکہ رہائشی کمروں میں بھی مدارس کے سینئر طالب علم رات کو اچانک کسی چیز کا بہانہ بنا کر کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ وہ کیمرے والے موبائل چیک کرتے ہیں کہ کوئی طالب علم کے پاس تو نہیں۔

نیا دور میڈیا کو مدارس کے طالب علموں نے بتایا کہ اگر کسی طالب علم کے پاس کیمرے والا موبائل پکڑا جاتا ہے تو نہ صرف موبائل ضبط کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا بیٹا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

فرہاد کا تعلق شبقدر سے ہے اور وہ گزشتہ ایک سال سے دارلعلوم کراچی میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ فرہاد نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ مدارس کے اندر کیمرے والے موبائل فون کے استعمال پر پابندی ہے اور لاہور واقع کے بعد چیکنگ سخت کی گئی ہے. انھوں نے مزید بتایا کہ کلاس میں جانے سے پہلے جامہ تلاشی شروع ہوتی ہے اور مدرسے کے استاد سے درس کے علاوہ اگر کسی کام سے ملنا ہو تو سینئیر طالب علم اس بات کو یقینی بنانے کے لئے جامہ تلاشی لیتے ہیں کہ کہیں طالب علم کے پاس کیمرے والا موبائل ساتھ تو نہیں۔

خیال رہے کہ وفاق المدارس کے ترجمان نے جامہ تلاشی کے حوالے سے خبروں کی تردید کی ہے.

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔