سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال صحافیوں کی جان لے رہا ہے

مذکورہ چار صحافیوں کے قتل کے واقعات تو ریکارڈ پر موجود ہیں البتہ کئی شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے کئی واقعات پیش آتے ہیں جن میں صحافیوں کو تشدد، ہراسانی اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مختلف طریقوں سے ہلاک کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال صحافیوں کی جان لے رہا ہے

پاکستان میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے صحافیوں کے قتل کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2023 تک چار صحافی سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا صحافیوں کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے اور صحافی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں چار واقعات میں صحافی ہلاک ہوئے ہیں جن کا سبب سوشل میڈیا پوسٹس تھیں۔

ان واقعات میں پہلا واقعہ 8 نومبر 2021 کو خیبر پختونخوا میں پیش آیا جہاں 'صدائے مالاکنڈ' اخبار کے ایڈیٹر محمد زادہ آگرہ کو گھر کے سامنے دو موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ صدائے مالاکنڈ کے ایڈیٹر رحمان نے پی پی ایف کو بتایا کہ محمد زادہ آگرہ کی موت منشیات فروشوں اور لینڈ مافیا کے خلاف فیس بک پر پوسٹس کرنے سے ہوئی ہے۔ انہیں کئی بار سنگین نتائج پر مبنی دھکمی آمیز فون بھی آ رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2 اکتوبر 2021 کو ڈپٹی کمشنر الطاف شیخ سے آگرہ کی چپکلش ہوئی تھی جس کے خلاف آگرہ نے اپنے فیس بک آئی ڈی پر ایک پوسٹ لکھی جس میں انہوں نے لکھا تھا؛

'مجھے ڈپٹی کمشنر الطاف شیخ ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے اور میری فیملی کے ساتھ کوئی بھی ناخشگوار واقعہ پیش آئے تو اس کا ذمہ دار ڈپٹی کمشنر الطاف شیخ ہو گا'۔

مقتول کے قتل کا مقدمہ ان کے بھائی عبدالجلال کی مدعیت میں دو نامعلوم افراد پر دفعہ نمبر 302/34/446 کے تحت درج کیا گیا۔ مقتول کے بھائی عبدالجلال نے بتایا کہ میرا بھائی ہمیشہ حق سچ لکھتا تھا جس کے قتل میں ڈپٹی کمشنر الطاف شیخ اور اسسٹنٹ کمشنر درگئی فواد خٹک ملوث ہیں جنہیں مقدمے میں شامل کر کے سخت سزا دی جائے تو تب جا کر ہمیں انصاف ملے گا۔

واضح رہے کہ 15 نومبر 2021 میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر محمد الطاف اور اسسٹنٹ کمشنر درگئی فواد خٹک کو عہدوں سے ہٹا دیا تھا اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا تھا مگر افسوس کہ اس کے بعد مذکورہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی انکوائری ہو سکی اور نا ہی مقتول صحافی محمد زادہ آگرہ کے قاتل گرفتار ہو سکے۔ تاہم 8 نومبر 2021 کو پیش آنے والے اس واقعے کو دو سال گزر گئے ہیں مگر ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی اور تاحال کیس سماعتوں کی نذر ہے۔

اسی طرح دوسرے واقعہ میں سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی تحصیل صالح پٹ میں صحافی اجے لالوانی کو قتل کیا گیا۔ اجے لالوانی کو 18 مارچ 2021 کو نائی کی دکان کے پاس کار پر سوار پانچ مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ اس واقعے میں مطلوب مرکزی ملزم عنایت شاہ، احسان شاہ، ہاؤس سٹیشن آفیسر(ایس ایچ او) عاشق میرانی، جمیل شاہ، رضا شاہ، غلام مصطفیٰ میرانی، جانب میرانی اور اکبر منگریو نامزد تھے۔ مقدمہ مقتول کے والد ایڈووکیٹ دلیپ کمار کی مدعیت میں زیر التوا ہے۔ کیس کے متعلق مقتول کے والد دلیپ کمار نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی سکھر کی عدالت میں ہر ماہ دو سماعتیں ہو رہی ہیں۔ آخری سماعت 7 سمتبر کو ہوئی تھی مگر انصاف نہیں مل رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا۔ کیس کا آئی او ایس ایس پی امجد شیخ ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سکھر کے تمام وکلا سمیت کیس میں مطلوب ملزمان کی سپورٹ میں کوئی وکیل کیس لڑنے کو تیار نہ تھے۔ اس لیے میں نے اپنا کیس کراچی کے ایڈووکیٹ زبیر احمد راجپوت کو سونپا ہوا ہے جو ہر سماعت میں شریک ہوتا ہے۔ اس وقت تک تقریباً 150 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ ہر سماعت میں ملزمان کے وکیل اور مطلوب افراد پیش نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے کیس سست روی کا شکار ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی واقعہ کے دوران پانچ ملزمان کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ کیس میں مطلوب ملزمان نے ضمانتیں منظور کروا لی ہیں اور ملزمان آزاد ہونے کے بعد مجھے اور میری فیملی کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

انہوں یہ بھی کہا کہ ملزمان کے حمایتی کئی بار کیس سے ہاتھ اٹھانے کے لیے بھاری رقم دینے کا زور دے رہے ہیں مگر میں ان کی ہر اس آفر کو ٹھکرا رہا ہوں کیونکہ میں اپنے بیٹے کے قتل کا حساب لوں گا۔ مقتول کے والد مدعی دلیپ کمار نے اعلیٰ حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا، تاہم اجے لالوانی کا واقعہ بھی سوشل میڈیا ہی کا سبب بنا ہے۔ جس نے سابقہ چیئرمین عنایت شاہ اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن کا خلاصہ کیا تھا مگر دو سال گزر گئے تاحال تک اس کیس میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

تیسرا واقعہ 23 جولائی 2020 کو بلوچستان کے علاقے بارکھان میں پیش آیا۔ صحافی انور جان کھیتران کو قتل کر دیا گیا۔ انور جان کھیتران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کسی بڑے ادارے سے منسلک تو نہیں تھے البتہ اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے رہتے تھے۔ پیشے سے وہ خود ایک زمیندار تھے۔ انور جان قتل کیس کے مقدمے میں مدعی ان کا بھائی اکبر جان ہے۔ ایف آئی آر دفعہ نمبر 302 /34 کے تحت لیویز تھانہ بارکھان میں درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق انور جان بارکھان سے گھر جاتے ہوئے مبینہ طور دو افراد نے رکنے کا اشارہ کیا۔ جب انہوں نے اپنی موٹر سائیکل ان کے قریب روکی تو انہوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ مدعی بھائی اکبر جان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انور جان کو جن دو افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا وہ بلوچستان کے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے باڈی گارڈ ہیں۔ تاہم صوبائی وزیر نے ان تمام الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

اس واقعے سے متعلق اکبر جان نے بتایا کہ انور جان نے فیس بک پر سرداری نظام کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی تھی اور صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کو براہ راست تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انور جان نے سوشل میڈیا کی وجہ سے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کیس کو تین سال گزر چکے ہیں مگر انور جان کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ با اثر شخصیات اس کیس کو دبانے کی مکمل کوشش کر رہی ہیں۔ ورثا نے اعلیٰ حکام سے انور جان کے قاتلوں کی گرفتاری کی اپیل کی ہے۔

چوتھا واقعہ 16 جون 2019 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آیا جس میں 22 سالہ بلاگر محمد بلال خان کو قتل کر دیا گیا۔

پی پی ایف کی رپورٹ کے مطابق، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس صدر ملک نعیم نے بتایا کہ جب ان پر حملہ کیا گیا تو بلال خان ​​اپنے چچا کے ساتھ تھے۔ بلال خان کو ایک 'نامعلوم شخص کی طرف سے G-9 آنے کے لیے فون کال موصول ہوئی تھی، جہاں سے ایک شخص اسے جنگل میں لے گیا'۔

رپورٹ کے مطابق ملزم نے بلال خان کو قتل کرنے کے لیے خنجر کا استعمال کیا۔ اس کے علاوہ علاقے میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ متاثرہ صحافی کے والد عبیداللہ نے اپنی مدعیت میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) دفعہ نمبر/302 کے تحت درج کرائی تھی۔

متاثرہ لڑکے کے والد نے ایک ویڈیو میں کہا کہ ان کے بیٹے کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اور اس نے اپنی زندگی اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے گزاری تھی۔

انویسٹی گیشن یونٹ کے ممبر آصف خان نے پی پی ایف کو بتایا کہ اب تک کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ مقدمہ زیر تفتیش ہے اور پولیس ملزمان کی گرفتاری کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

بلال خان کے والد عبید اللہ نے 16 اپریل 2020 کو پی پی ایف کو بتایا کہ وہ تین بار پولیس سٹیشن گئے لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملا کیونکہ پولیس اہلکار اسے کہتے تھے کہ کیس ابھی زیر تفتیش ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ اسے فون کریں گے۔ تاہم اس واقعے کو تین سال گزر چکے ہیں مگر تاحال ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔ کیس سست روی کا شکار ہے۔ بلال خان ایک بلاگر تھے جو ہر طرح کے ایشو پر کھل کر بات کرتے رہتے تھے۔

مذکورہ واقعات میں سے چاروں صحافیوں کے قتل کا سبب 100 فیصد تک تو سوشل میڈیا نہیں ہو سکتا البتہ ان سب کے قتل کا ایک سبب سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے فنانس سیکرٹری لالہ اسد پٹھان کہتے ہیں کہ مذکورہ مقتول چاروں صحافیوں کے واقعات سوشل میڈیا جواز بن رہے ہیں، وہی اگر کسی مین سٹریم میڈیا پر کسی بھی گناہ کا پردہ چاک کرتے تو شاید یہ واقعات دیکھنے کو نہ ملتے۔ جلدی جلدی سوشل میڈیا کی زینت بن جانے والی خبریں وبال جان بن جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا وہ کردار ہے جو اپنے اندر کے انسان کو دنیا کے سامنے خود دکھاتا ہے۔ سوشل میڈیا جلتی آگ پر تیل چھڑکنے والا کام کرتا ہے۔ صحافیوں کو چاہئیے کہ اسے باریک بینی اور احتیاط سے استعمال کریں۔ سخت جملوں اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اپنی سیفٹی کو محفوظ بنانا اولین فرض ہے۔ سوشل میڈیا کے قوانین بننے چاہئیں تا کہ اسے کنٹرول کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کو ہر عام اور خاص اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت جتنے بھی ایپس ہیں پاکستان میں خاص طور پر استعمال کرنے والے افراد غلط بیانیہ پر استعمال کرتے ہیں اور دشمنیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقیدی تیر چلاتے ہیں، چاہے وہ صحافی ہوں یا سیاسی حکمران، ہر کوئی استعمال کر کے اپنے آپ کو میڈیا پرسن سمجھنے لگتا ہے۔ کئی صحافی ہراساں ہونے اور تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں سوشل میڈیا اور فیس بک ہی سبب ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ہر صحافی خود جج بن جاتا ہے۔ اگر لوگ احتیاط کریں تو محفوظ رہیں گے۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا پر کنٹرول کیا جائے۔ قوانین بنائے جائیں تا کہ نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

براڈکاسٹ جرنلسٹ آصف محمود کا کہنا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جب کوئی صحافی کسی بھی جماعت اور گروہ کے خلاف کوئی خبر دیتا ہے تو اس کی کردارکشی شروع کر دی جاتی ہے، گالیاں اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اگر اقلیتوں کے مسائل کو اجاگر کریں یا ان کے حقوق کی بات کی جائے تو اسلام دشمنی کے فتوے جاری کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کی حمایت میں کچھ بول دیں تو لفافہ لینے کا الزام لگ جاتا ہے۔

حالانکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یعنی فیس بک، ٹوئٹر،انسٹا گرام پر صحافی اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان میں عدم برداشت اس قدر ہے کہ کوئی اپنی جماعت اور اپنے لیڈر کے خلاف بات سننا گوارا نہیں کرتا جس کے باعث اختلافات جنم لیتے ہیں اور صحافیوں کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر ان صحافیوں کو مارا جاتا ہے یا پھر تشدد اور ہراساں کرنے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں صحافی کو اظہار رائے کے معاملے پر سیاسی لیڈران کے حمایتی غلط قدم اٹھاتے ہیں اور اسی طرح گذشتہ چند برسوں سے تو پٹواری، جیالے اور یوتھیوں کی اصطلاح اس قدر عام ہونا شروع ہو گئی کہ صحافی ان الزامات میں کھو گئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اب حالات ایسے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھنے اور بولنے سے پہلے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہئیے ورنہ پھر خود کو کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کے لئے تیار رکھنا ہو گا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ضلع وہاڑی کے جنرل سیکرٹری اور ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹ مبشر مجید مرزا بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک استعمال فیک بک کی صورت میں ہوتا ہے جس کے باعث صحافی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں صرف ایک افواہ کو تصدیق کیے بغیر چند منٹ میں لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کے لیے ناسور کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومت پاکستان نے تاحال ایسے قوانین نہیں بنائے جن سے معلومات کی تصدیق کے پراسیس کو سپورٹ مل سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور تصدیق کے بغیر کسی صورت خبر کو شیئر نہ کرے کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس مختلف خلاف ورزیوں کے حوالے سے کمیونٹی گائیڈ لائنز موجود ہیں لیکن معلومات کی تصدیق یا تردید کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے گریز کریں۔ مذکورہ چار صحافیوں کے قتل کے واقعات تو ریکارڈ پر موجود ہیں البتہ کئی شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے کئی واقعات پیش آتے ہیں جن میں صحافیوں کو تشدد، ہراسانی اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مختلف طریقوں سے ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ایسے کئی واقعات ریکارڈ نہیں ہو پاتے جن کا سبب سوشل میڈیا ہوتا ہے تو اس لیے سیفٹی میڈیا کا اہم نقطہ نظر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کریں مگر اخلاقیات کے ساتھ تنقید کرنے سے گریز کیا جائے۔ اگر خبریں پبلش ہوئی ہوں انہیں سوشل میڈیا کی زہنت بنایا جائے۔ اس طرح صحافی ڈیجیٹل ہراسانی، تشدد اور ہلاکتوں کے خدشات سے محفوظ رہ سکیں گے۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔