شراب، عریانی، مباشرت اور احمدی ہمارے سماجی مسائل نہیں ہیں

شراب، عریانی، مباشرت اور احمدی ہمارے سماجی مسائل نہیں ہیں
ساٹھ کی دہائی اور تقریباً ستر کے ابتدائی عشرے تک پاکستان میں الکوحل یعنی شراب پینا یا نہ پینا کسی بھی شخص کا ذاتی فعل گردانا جاتا تھا اور مجموعی طور پر معاشرے میں اس مدعے کو لے کر کوئی ہیجانی کیفیت طاری نہیں تھی۔ قیام پاکستان سے لے کر ساٹھ کی دہائی کے آخری عشرے تک تمام مؤقر قومی جریدوں میں سکاچ اور وہسکی کے مختلف برانڈز کے اشتہارات روزانہ چھپتے تھے۔ مختلف بارز اور ہوٹلوں میں اسے سرو کیا جاتا تھا۔

مولویوں کو خوش کرنے کے لئے شراب پر پابندی

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وزرارت عظمیٰ سنبھالی اور مولویوں کو خوش کرنے کے لئے شراب پر پابندی لگا دی۔ نتیجتاً شراب پینے والوں کی تعداد میں کمی تو نہ ہوئی البتہ چوری چھپے اسے استعمال کیا جانے لگا۔ ستر کی دہائی میں ہی پاکستانیوں کی نیم پڑھی لکھی آبادی خلیجی ریاستوں میں بسلسلہ روزگار منتقل ہونا شروع ہوئی اور ریال اور دینار کی چکا چوند میں برصغیر کی صدیوں پرانی ثقافت اور تہذیب کو بھلا کر عربی ثقافت کو وطن عزیز پر مسلط کرنے میں کوشاں ہو گئی۔ خاندان میں کزنز اور دیگر رشتے صنفی بنیادوں پر تقسیم ہونا شروع ہوئے اور محرم، نامحرم کی بحث نے پل میں خاندانی رشتوں میں صنفی بنیادوں پر تقسیم پیدا کر دی۔

خلیجی ریاستوں میں بسے پاکستانی خضاب لگا کر شراب اور شباب سے لطف اندوز ہونے کے بعد یہاں دین کی ترویج میں مصروف ہو جاتے

جنرل ضیاالحق کے عنان اقتدار سنبھالتے ہی مذہب کو ثقافت پر مسلط کرتے ہوئے معاشرے کو مذہبی شدت پسندی میں جھونک دیا گیا۔ شراب اور فحاشی کو قوم اور معاشرے کی زبوں حالی کی وجہ بتا کر معاشرے کو آرٹس اور ثقافتی سرگرمیوں سے دور کر دیا گیا۔ اس دوران خلیجی ریاستوں میں بسنے والے پاکستانی بھی مالی طور پر مستحکم ہو گئے اور خضاب لگا کر دبئی اور ہانگ کانگ کے نائٹ کلبوں میں شراب اور شباب سے لطف اندوز ہونے کے بعد اپنے اندر کے احساس ندامت کو چھپانے کے لئے تن من اور دھن سے وطن عزیز میں مذہب کی ترویج میں مصروف ہو گئے۔

نتیجتاً صدیوں سے اپنی اپنی ثقافت اور تہذیب و تمدن میں بستے پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون ایک منافقت اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہو گئے۔ چادر اور چار دیواری اور بے حیائی اور عریانی و فحاشی کی روک تھام کی کاوشوں نے شراب کی بوتل کو بھی چار دیواری میں مقید کر دیا اور اسے چھپ کر نوش کرنے کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ اسی طرح قحبہ خانوں کو زبردستی بند کرنے کی دھن میں گلی محلوں میں ہی اندرون خانہ اس طرح کے لاتعداد کاروبار کھل گئے۔

احمدیوں پر ذوالفقار علی بھٹو کی 'مہربانی'

اس اثنا میں ذوالفقار بھٹو کی ایک اور مہربانی کی بدولت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا اور ضیاالحق اپنے دور حکومت میں احمدیوں کے خلاف نفرت کی ایک بہت بڑی فصل کاشت کر کے جا چکا تھا۔ یہ تمام بوئے ہوئے بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو الباکستان بنا دیا گیا۔ درس و تدریس کے شعبہ جات ہوں یا صحافت اور دانشوروں کے پیشہ جات، سیاستدانوں کی پاور گیم ہو یا پھر ملا ملٹری الائنس، تمام شعبہ جات اور طبقات نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور عوام کو ان مسائل میں الجھائے رکھنے کے لئے بھرپور قوت سے بے حیائی، عریانی، شراب، عورت اور احمدیوں کو معاشرے کے سب سے بڑے مسائل بنا کر ہیش کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور نتیجتاً نفرتوں اور تعصبات کے خمیر میں گندھے ایسے کروڑہا اذہان پیدا کر دیے گئے جن کے نزدیک زندگی کی تمام مسرتیں اور خوشیاں بے حیائی اور عریانی کے زمرے میں آتی ہیں اور جن کو ہر وقت مذہب اور وطن کے خلاف احمدی حضرات بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

عاطف میاں کا تقرر

حال ہی میں عمران خان نے اکنامک ایڈوائزر کے طور پر محترم عاطف میاں کا اپنی حکومت میں ایک اہم عہدے پر تقرر کیا اور ان کے سیاسی مخالفین، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے عاطف میاں کے عقیدے کو بنیاد بناتے ہوئے عمران خان کو قادیانی نواز ہونے کے طعنے مارنے شروع کر دیے۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما تو بیانات دے کر اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کے بعد چپ سادھ لیتے ہیں لیکن یہ بیانات پہلے سے متعصب اور شدت پسند اذہان کو مزید شدت پسندی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔

جس برادری کو اپنی بقا اور صرف اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لئے ہی روز و شب اس معاشرے سے سبکی کروا کر جینا پڑتا ہے وہ برادری کیسے اور کب مذہب یا وطن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؟

احمدی برادری تو پہلے ہی وطن عزیز میں شودروں کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جس برادری کو اپنی بقا اور صرف اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لئے ہی روز و شب اس معاشرے سے سبکی کروا کر جینا پڑتا ہے وہ برادری کیسے اور کب مذہب یا وطن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؟ جس برادری کے لوگوں کو گاجر مولی کی طرح آئے روز کاٹا جاتا ہو، ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا ہو اور جن سے کاروباری لین دین نہ کرنے کے بڑے بڑے اشتہارات تک بازاروں میں چسپاں ہوں وہ پسی ہوئی برادری اگر وطن عزیز یا مذہب کے لئے کسی کو خطرہ معلوم ہوتی ہے تو اسے فوری طور پر کسی اچھے دماغی معالج کی ضرورت ہے جو اسے paranoia اور hallucination کی کیفیات سے باہر نکال سکے۔ چونکہ یہ سوچ مجموعی طور پر اس سماج میں زیادہ تر بسنے والے افراد کی بھی ہے تو شاید اس سماج کو سپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار قرار دیا جا سکتا ہے جو خود ہی بیک وقت مختلف روپ دھارتا ہے اور اسے اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔

عبادت گاہیں جلانے کا کوئی واقعہ احمدیوں کے ہاتھوں سرزد نہیں ہوا

مثال کے طور پر حقیقتاً وطن عزیز میں بسنے والی اکثریت کو احمدیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ احمدیوں کو اس اکثریت سے خطرہ ہے۔ اکثریت کی عبادت گاہیں جلانے کا کوئی واقعہ احمدیوں کے ہاتھوں سرزد نہیں ہوا بلکہ اکثر و بیشتر احمدیوں کی عبادت گاہیں سماج میں بسنے والی اکثریت کے ہاتھوں جلائی جاتی ہیں یا مسمار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح شام ڈھلتے ہی بڑے بڑے ہوٹلوں کے باہر شراب کے حصول کے لئے قطاریں لگائے کھڑے افراد بیرونی دنیا سے نہیں ہوتے بلکہ ہمارے سماج سے ہی ہوتے ہیں۔

یہ سب حرکتیں کوئی صیہونی طاقتوں کی سازش نہیں

پورن سرچ کرنے کی بات ہو یا سنگا پور اور دبئی کے نائٹ کلبوں میں ادھیڑ عمری میں جوانی کے ناآسودہ جذبات کی تسکین، یہ تمام حرکات ہمارے سماج میں بسنے والے افراد سے ہی سرزد ہوتی ہیں نہ کہ صیہونی طاقتوں کی سازش کا ان میں کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ بنیادی جبلتوں کو دبا کر لوگوں کو انہیں چوری چھپے پورا کرنے پر مجبور تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان جبلتوں کو مارا نہیں جا سکتا۔ انسان جبلی طور پر کچھ وقت جسمانی اور ذہنی تسکین میں صرف کرنا چاہتا ہے اور وہ ہر صورت اسے پورا بھی کرتا ہے۔ اب قدغنوں کی صورت میں اس کی تسکین خود لذتی بھی ہو سکتی ہے اور بچہ بازی بھی۔ جو حضرات مالی استطاعت یا مواقع رکھتے ہیں انہیں یورپ اور دیگر بیرونی ممالک میں اپنی جبلتوں کی تسکین کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں یا شرجیل میمن کی مانند انہیں ہسپتالوں کے کمروں میں بھی سکاچ اور وہسکی کی بوتلیں مہیا ہو جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں بھی خادم رضوی یا احسان الله احسان کی بجائے سٹیفن ہاکنگ اور سٹیو جابز پیدا ہو سکتے تھے

حیرت انگیز طور پر بطور سماج ہمارا سارا وقت اور زور شراب، بے حیائی، عریانی، فحاشی کے تدارک اور احمدیوں کو کسی بھی طور سماج سے باہر پھینک دینے پر صرف ہوتا ہے اگر اتنا ہی وقت اور طاقت جدید علوم و فنون کی ترویج، تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی اور ریسرچ پر صرف کیا جاتا تو ہمارے ہاں بھی خادم رضوی یا احسان الله احسان کی بجائے سٹیفن ہاکنگ اور سٹیو جابز پیدا ہو سکتے تھے۔ زندگی محض جبراً پابندیاں اور قدغنیں لگانے یا اقلیتوں کا استحصال کرنے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی جمود اور قدغنوں کے جوہڑوں میں زندگی پنپنے پاتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ترقی یافتہ اور باشعور سماج کبھی قدغنوں اور مخالف اقلیتوں کے استحصال یا مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دم پر ترقی یافتہ نہیں بنا بلکہ ایسے سماجوں میں عقائد اور جبلتوں کی تسکین کو افراد کا ذاتی مسئلہ قرار دیتے ہوئے توانائیاں اور وقت تحقیق، علم و آگہی، سائنس، ٹیکنالوجی اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں صرف ہوئے۔ جبکہ ہمارے سماج میں پھیلا دہرے پن اور نفرتوں کا تعفن ہماری غلط ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

معروضی حقیقتوں کا ادراک کرنا پڑے گا ورنہ۔۔۔

کوئی شراب پیتا ہے یا جنسی آسودگی کی تسکین کے لئے کسی قحبہ خانے پر جاتا ہے یا کوئی کون سا عقیدہ رکھتا ہے نہ تو یہ کوئی سماجی مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی بھی شخص یا ریاست کو اپنی مرضی کی سوچ اور نظریات دوسروں پر اس حوالے سے زبردستی تھوپنے کا اختیار حاصل ہے۔ ہمارے اصل مسائل شراب، عریانی مباشرت یا احمدیوں کا استحصال نہیں ہیں بلکہ علم و آگہی کی کمی، تعصبانہ سوچ و نظریات، غربت، جہالت اور ذہنی پسماندگی ہیں۔ ان مسائل کے تدارک کے لئے بطور سماج ہمیں نرگسیت پسندی اور اجتماعی سپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر کے مرض سے جان چھڑوا کر جدید دنیا کی معروضی حقیقتوں کا ادراک کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ہم ایک سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے جنت کی لالچ میں اپنے ہی سماج کو دوزخ بنانے کا یہ عمل جاری و ساری رکھتے، وقت کے بیابانوں کی دھول میں ایک بے مصرف سماج کے طور پر کھو جائیں گے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔