Get Alerts

'لوگ ٹیکس دیتے نہیں اور چیزوں کو خراب کہتے ہيں' وزیراعظم نے برے حالات کا ذمہ دار عوام کو ٹھہرا دیا

'لوگ ٹیکس دیتے نہیں اور چیزوں کو خراب کہتے ہيں' وزیراعظم نے برے حالات کا ذمہ دار عوام کو ٹھہرا دیا
وزیر اعظم عمران خان نے برے حالات کا ذمہ دار عوام کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ ٹیکس دیتے نہیں اور چیزوں کو خراب کہتے ہيں، جب تک ٹیکس نہيں دیں گے ملکی دولت میں اضافہ نہيں ہوگا۔ کوئی بھی ملک غریبوں کے سمندر کے ساتھ ترقی نہیں کرسکتا اور نیا پاکستان جدوجہد، نظام اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا نام ہے، جس کے لیے وقت لگے گا۔

اسلام آباد میں کنسٹرکشن ایکسپو 2021 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے دو سال لگا کر عدالتوں سے فور کلوژر منظور کروالیا، اب بینکوں کے لیے گھروں کی فنانسنگ کے لیے راستہ کھل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پھر ہماری 22 کروڑ آبادی اثاثہ بن جائے گی کیونکہ طلب میں اضافہ ہوگا، جس کے بعد صنعت ترقی کرے گی اور اس سے منسلک تمام کاروبار ترقی کریں گے۔ میری حکومت کی کوشش ہے کہ کیسے ہم اپنے غریب کو اوپر اٹھا سکتے ہیں، جہاں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہو اور باقی غریبوں کا سمندر ہو تو کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور چین 35 سال پہلے ایک ہی جگہ تھے لیکن آج چین آسمانوں پر ہے جبکہ بھارت میں غربت کا سمندر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک چھوٹا سے طبقہ امیر ہے لیکن باقی لوگ غریب ہیں جبکہ چین نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا اور آج سپر پاور بن گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو مدینہ کی ریاست کے مطابق بڑھنا ہے، ہمارے پیغمبر ﷺ نے ثابت کیا کہ جس قوم کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کو بنایا اور پھر اس نے دنیا کی امامت کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی نچلے طبقے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی، انگلش میڈیم ایک چھوٹے سے طبقے کے لیے اور دوسروں کے لیے تعلیم کا الگ نظام بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اوپر کے طبقے کو نوکریاں اور باقی اوپر نہیں آسکتے تھے، جب ہم چھوٹے تھے تو سرکاری ہسپتال بہترین چلتے تھے آج صرف نجی ہسپتال پیسے والوں کے علاج کے لیے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کا علاج نیچے چلا گیا۔ حکومت کی پالیسی ایسی ہو کہ جو طبقہ گزشتہ 70 برسوں سے نیچے چلا گیا ہے، اس کو اوپر اٹھایا جائے، اسی لیے کنسٹرکشن کا شعبہ بہت اہم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے دوران میں نے خود عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سربراہ کو فون کیا کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے اور بدقسمتی سے ٹیکس ریلیف نہیں دے سکتے تھے لیکن فون کرکے وہ ریلیف حاصل کرلیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر ہم نے مسلسل ملاقاتیں کیں اور احساس ہوا کہ ہم نے کاروبار، کنسٹرکشن اور صنعت کے سامنے اتنی رکاوٹیں ڈالی ہوئی ہیں، ہمارا سسٹم ایسا ہوگیا کہ وہ صنعت کی حوصلہ افزائی اور دولت میں اضافے کے لیے مدد کے بجائے رکاوٹیں ڈال دیتا ہے۔ جب اصلاحات کرتے ہیں تو وقت لگتا ہے، بٹن دبانے سے نیا پاکستان نہیں آئے گا بلکہ یہ جدوجہد، سسٹم تبدیل اور مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کا نام ہے اور یہ شروع ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے، اب بھی رکاوٹیں ہیں لیکن دو سال پہلے کے مقابلے میں کم ہیں، کنسٹرکشن کے لیے وہ مراعات ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھیں اور ہم مزید بہتری لائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ حل کریں گے، ہمارے وزیر خزانہ شوکت ترین ان چیزوں کو سمجھتے ہیں، کنسٹرکشن پر معیشت سب سے زیادہ بہتر ہوتی ہے، اس سے دولت بڑھے گی اور جو قرضے لیے ہیں وہ اسی وقت واپس کریں گے جب معیشت بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے برآمدات میں توجہ نہ دے کر ملک سے ظلم کیا، برآمدات کے بغیر معیشت کیسے بہتر ہوگی، ٹیکسٹائل کے علاوہ کسی نے برآمدات کا سوچا ہی نہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہے کہ صنعت کے لیے آسانیاں پیدا کریں لیکن آپ کا کام ہے کہ ٹیکس دے کر حکومت کی مدد کریں تاکہ انفرا اسٹرکچر ٹھیک کریں اور عوام کی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرسکیں گے۔