ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ادارے پر 2.3 کھرب کا قرض چڑھ چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ این ایچ اے کو پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات کیلئے حکومت قرض دیتی ہے۔ این ایچ اے کے اوپر 2.3 کھرب کا قرض ہو چکا ہے۔ موٹر ویز کو اچھی حالت میں لانے کیلئے 60 سے70 ارب روپے درکار ہیں جبکہ ٹول ٹیکس 35 ارب روپے ملتا ہے۔ جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ لاہور سے اسلام آباد اور لاہور سے فیصل آباد اور پشاور کتنا ٹال ٹیکس اکھٹا ہوتا ہے اس کی علیحدہ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ٹال ٹیکس ان سیکشنز سے وصول کیا جاتا ہے جبکہ خرچ دیگر حصو ں میں زیادہ کیا جاتا ہے۔
کمیٹی نے موٹر ویز پر عوام سے لینے والے ٹیکس میں اضافے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 160 روپے سے شروع ہونے والے ٹال ٹیکس اب ایک ہزار کے قریب پہنچ چکا ہے جو عوام کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے۔ کمیٹی نے ریمارکس دیئے کہ کس طریقہ کار اور کس قانون کے تحت عوام سے اتنا زیادہ ٹال ٹیکس وصول کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات تحریری طور پر فراہم کی جائیں۔ کمیٹی نے موقف اپنایا کہ دنیا بھر میں ایک طریقہ کار کے مطابق ٹول ٹیکس میں اضافہ کیا جاتا ہے مگر یہاں ٹھیکداروں کو نوازا گیا ہے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ منصوبہ جات کے ابتدائی تخمینہ صحیح نہیں لگائے جاتے۔ ٹھیکدار ابوں کا منافع کماتے ہیں اور خوار عوام ہوتی ہے۔ کمیٹی نے M-9 کراچی حیدر آباد منصوبے کی تفصیلات قائمہ کمیٹی کو فراہم کرنے کے احکامات جاری کئے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ شاہراہ قراقرم کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اس پر سامان بردار ٹریفک چل نہیں سکتی یہ سی پیک منصوبے میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اس کی حالت انتہائی خراب ہے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ ناران میں این ایچ اے کا ایک گیٹس ہاؤس ہے جسے غیر قانونی طور پر ایک پرائیوٹ بندے کو دیا گیا ہے اس کی تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرنس عمر احمد زئی نے کہا کہ مواصلات کے نظام میں بہتری لا کر ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔سٹرکو ں کی حالت زار بہتر بنا کر عوام کو ریلیف دیا جائے اور سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل سے علاقے کی تقدیر بدل جائے گی۔