2016ء، میں 4139 بچوں کو جنسی درندگی کانشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے 52 فیصد لڑکیاں تھیں جبکہ 42 فیصد لڑکے تھے ۔100 بچوں کو جنسی تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا۔ اس سال کم عمر بچیوں کی شادی کے 179 واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
قصور میں سات سالہ زینب انصاری کے وحشیانہ ریپ اور قتل کے بعد بچوں پر جنسی تشدد کی خبریں پاکستانی میڈیا کی ہیڈلائنز پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر روز ایک ہی جرم کی نئی رپورٹ پیش کی جارہی ہو۔ چند روزقبل ، اٹھائیس جنوری 2018 ء کو ایف آئی اے نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو بچوں کی عریاں فلمیں انٹرنیشنل چائلڈ پورن کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ ایک اور واقعے میں ٹیکسلا میں دس سالہ بچی پر جنسی تشدد کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی رپورٹس سے متعلق سرگرمی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی شہری ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ناقابلِ یقین حد تک زیادہ اور انتہائی لرزہ دینے والے حقائق پر اپنے ردِعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ایک این جی او، ساحل، جو 1996ء سے پاکستان میں بچوں کے تحفظ پر کام کررہی ہے ، کے مطابق 2011 سے لے کر 2016 کے درمیان ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 19508 کیسز سامنے آئے ۔ مزید یہ کہ ہر سال رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد میں چند سوکا اضافہ ہورہا ہے ۔ اس جائزے کے دومطلب ہوسکتے ہیں: یا تو ہر سال بچوں پر حملوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، یا اب لوگوں کو احساس ہورہا ہے کہ جنسی زیادتی پر سماجی شرم کی وجہ سے طاری کی جانی والی خاموشی کو اب توڑنا ہوگا۔
’’ساحل‘‘ کی سالانہ رپورٹ، ’’سفاک اعدادوشمار‘‘ کے مطابق 2011 ء میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2303 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 505 کیسز گینگ ریپ یا غیر فطری جنسی حملوں کے تھے۔ جنسی حملوں کا نشانہ بننے والے بچوں میں 72فیصد لڑکیاں تھیں جبکہ 28 فیصد لڑکے تھے ۔ ایسے گھناؤنے واقعات کا ارتکاب کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق واقف کاروں سے تھا۔ دوسری بڑی تعداد اجنبیوں کی تھی، جبکہ تیسری بڑی تعداد اُن بچوں کے رشتہ داروں کی تھی ۔ چھے سے اٹھارہ سال کی لڑکیاں ، جبکہ چھے سے پندرہ سال کے لڑکے جنسی درندگی کا نشانہ بننے کے خطرے سے دوچار تھے ۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد لڑکیاں ریپ کا نشانہ نہیں بنتیں؟ دراصل یہ رپورٹ بچوں پر جنسی تشدد کے بارے میں ہے ۔ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ خواتین جوانی کے کسی بھی حصے میں ریپ کانشانہ بننے کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔ ان کیسز میں سے 79 فیصد پنجاب ، 10فیصد سندھ ، 4فیصد خیبرپختونخواہ میں، 6 فیصد بلوچستان اور اسلام آباد میں ، اور ایک فیصد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں رپورٹ ہوئے ۔
یہ خوفناک اعدادوشمار ملک میں بچوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست بچوں کو انسان نما شکاری درندوں سے بچانے میں ناکام ہوچکی ہے ، بالکل جس طرح یہ معاشرے کے کمزور طبقات، جیسا کہ مذہبی اقلیتوں اور عورتوں کا تحفظ نہیں کرپائی۔ اس ملک میں نسل در نسل جنسی درندگی کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔
ہماری بالغ آبادی ،چاہے اس کا تعلق حکمران طبقے سے ہو یا عوام سے، خوفناک نفسیاتی مسائل کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اس نفسیاتی عدم توازن کی وجہ بچوں پر وسیع پیمانے پر ہونے والا تشددہو۔