اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی یہ کائنات بے حد حسین ہے۔ یہ زمین اپنے دیدہ زیب رنگوں دلنشیں نظاروں فلک بوس پہاڑوں اور اس میں بسنے والے جانداروں کی موجودگی کے باعث باقی کائنات کی نسبت زیادہ حسین، خوبصورت اور دلکش معلوم ہوتی ہے۔ مگر جس طرح ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی، جس طرح ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا بالکل اسی طرح تمام خوبصورت نظر آنے والی چیزیں حقیقت میں بھی خوبصورت نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم اس کائنات کی اشرف المخلوقات سمجھی جانے والی تخلیق کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ تمام انسان خوبصورت نہیں ہوتے بلکہ کچھ انسان انتہائی بدصورت اور بدنما بھی ہوتے ہیں۔
میں یہ بات اس لیے نہیں کہہ رہا کہ وہ ظاہری طور پر سیاہ رنگ یا برے خدوخال والے ہوتے ہیں بلکہ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان کے دل تاریک ہوتے ہیں، ان کا لہو بظاہر تو سرخ نظر آتا ہے مگر وہ سیاہ ہوتا ہے۔ ان کے اعمال بد ہوتے ہیں، ان کے افعال برے ہوتے ہیں۔ جی ہاں! جناب وہ لوگ اپنے کردار کی سیاہی اور بدصورتی کی وجہ سے بدصورت کہلاتے ہیں۔ مگر ایسے بدصورت لوگوں کو پہچاننا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ ان کی بدصورتی ان کے اعمال، ان کی سوچ اور ان کے کردار میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی مگر بدصورتی کی یہ قسم انتہائی خطرناک ہے کیوں کہ یہ بدصورتی معاشرے کے حسین چہرے پر بدنما داغ یا ناسور بن کر ابھرتی ہے۔
کردار کے بدصورت لوگوں کی ویسے تو کئی اقسام ہیں مگر آج کی تحریر بیمار ذہنیت، جنون معاشرتی، پسماندگی اور جہالت سے بھرپور ایسے بدصورت لوگوں کے گرد گھومتی ہے جن کا نشانہ ہمارے بچے، ہماری قوم کا مستقبل یعنی ہماری آنے والی نسل ہے۔ یہ تحریر پاکستان میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی جانب توجہ دلانے کی ایک کاوش ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ 6 ماہ میں 1300 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ڈان نیوز کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 10 سے زائد واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں مگر حقیقت میں پیش آنیوالے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر کئی بچے اور ان کے والدین اپنی عزت کو تماشہ بننے سے بچانے کی غرض سے مصلحت کے تحت رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مثال سے بات سمجھانا یا کسی کے درد کو محسوس کرنا آسان ہو جاتا ہے مگر مثال کے طور پیش کرنے کے لیے میرا قلم فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ میں کس دلخراش واقعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کس کے والدین کا دکھ بیان کروں یا کس بچے یا بچی کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور سفاکیت کا تذکرہ اپنی تحریر میں کروں۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ میں آپ کے سامنے تین سالہ معصومہ، مقتولہ فریال پر ہونے والی زیادتی اور سفاکیت کا تذکرہ کروں یا حیوانیت اور درندگی کا نشانہ بننے والی آٹھ سالہ کم سن مقتولہ ہوض نور کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا تذکرہ کروں۔ میں پنجاب کے پسماندہ گاؤں میں کسی بگڑے رئیس زادے کی وحشت کی نظر ہونے والے طلحہ کا ذکر کروں جس کے والدین کی آواز کو دبا دیا گیا یا پھر کسی شہر میں زیادتی کے بعد مار دیے جانے والے کسی اور معصوم فرشتے کا جس کی مسخ شدہ لاش کئی روز بعد والدین کو ملی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ میں معصوم و مقتول زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کا تذکرہ کروں یا پھر خیبر پختونخواہ سے ذہنی طور پر معذور گوشی کے والدین کا دکھ بیان کروں یا پھر 14 سالہ اس بچی کے ساتھ ہونے والے ظلم کا تذکرہ کیا جائے جسے راولپنڈی کے باریش نام نہاد معززین اور جواں سالہ لونڈوں نے مل کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے ایک ایسی اولاد کا تحفہ دیا جسے یہ نام نہاد حلالی معاشرہ "حرامی" کا لقب دے گا اور اس کی 14 سالہ معصوم و بے قصور والدہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی فحاشہ کے درجے پر فائز ہونا پڑے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زمانے کی سفاکیت اور بربریت کی ایسی داستانیں اگر قلم کی نوک سے قرطاس کے سینے میں پیوست بھی کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بھی حضرت انسان کے ایسے سیاہ کرتوتوں کو دیکھ کر کانپ اٹھے اور پناہ مانگے۔ مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسے دلخراش واقعات اور انسانیت سوز داستانوں کو اور ایسی داستانیں جنم لینے کی وجوہات کو جب تک زیر بحث نہیں لایا جائے گا معاشرہ لاشعور رہے گا اور یونہی ہمارا ناقابل تلافی نقصان ہوتا رہے گا۔ یہ آگ ہمارے گھروں کو جلاتی رہے گی اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ ایسے واقعات سے اگر ہم یونہی لاتعلق رہے تو یقین جانیے ہم بھی شریک جرم سمجھے جائیں گے اور اس بڑھتی ہوئی معاشرتی برائی کے پھیلنے میں برابر کے قصوروار سمجھے جائیں گے۔
بہت افسوسناک بات ہے کہ ان واقعات سے متعلق آگاہی دینے اور ان کو روکنے کے لیے ہمارے ملک میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے اور یہ برائی ایک کے بعد دوسرا گھر جلا رہی ہے ۔ ہم اور ہماری گورنمنٹ کمیشنز بنانے، کمیٹیاں تشکیل دینے اور والدین کو جھوٹے دلاسے دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہی۔ ہم بحثیت عوام اور قوم بڑی ہمت کر کے صرف واقعات کی مذمت کرتے ہیں دو چار دن تحریک چلاتے ہیں اور اس کے بعد خاموشی سے اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ملزم چار دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہیں اور پھر ضمانت پر رہا ہو کر اپنی معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔ ہماری قومی بے حسی کو اگر ایک شعر میں بیان کروں تو ایسا کہوں گا کہ:
افسوس یہ نہیں کہ بے حس ہیں ہم
افسوس یہ ہے کہ احساس بے حسی بھی نہیں
پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات ایک تشویشناک صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔ اگر ہم نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ اٹھائے اور ان واقعات سے متعلق آگاہی اور شعور معاشرے میں نہ پھیلایا تو مستقبل میں یہ سماجی برائی ہمارے لئے سنگین حالات کو جنم دے سکتی ہے۔ کیوں کہ ایک ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا جہاں پر ان کا مستقبل یعنی ان کے بچے محفوظ نہ ہوں۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ اگلی تحریر میں ان وجوہات میں سے چند اہم وجوہات اور ان کے مناسب حل کو زیر بحث لایا جائے گا۔ اللہ رب العزت ہمارے بچوں کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو ایسے حالات سے محفوظ رکھے۔ آمین