پاکستان کے کچھ عجیب وغریب حقائق

پاکستان کے کچھ عجیب وغریب حقائق

خیموں کی حکومت


جب 1947ء کو پاکستان ایک الگ وطن بنا، اس کے پاس وسائل کی انتہائی قلت تھی۔ اس کے بہت سے اوّلین سرکاری افسران عارضی خیموں میں دفاتر قائم کرکے سرکاری امور سرانجام دیتے تھے۔


ملکہ اور ملک کے لیے


ملکہ برطانیہ 1956 ء تک پاکستانی ریاست کی سربراہ تھیں۔ پاکستان1947ء کو ایک ’’آزاد برطانوی ریاست ‘‘ کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس سے پہلے کنگ جارج ششم1952 ء تک ریاست کے سربراہ تھے ۔ اس کے بعد یہ منصب ملکہ الزبتھ کے پاس چلا گیا، یہاں تک کہ پاکستان 1956ء میں ایک عوامی جمہوریہ قرار پایا۔


کراچی کا اساطیری دور


1940 ء کی دہائی کے آغاز تک کراچی کو’’ جنوبی ایشیا کاصاف ترین شہر‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ اسے ’’ایشیا کا پیرس ‘‘بھی کہا جاتا تھا۔


1960 ء میں پاکستان کے صنعتی ترقی کے عروج کے زمانے میں کراچی پاکستان کا معاشی مرکز بن گیا۔ صرف یہی نہیں، یہ شہر اپنے سینماؤں، ریستوانوں ، بار اور نائٹ کلبوں کے ساتھ اس کا تفریحی مرکز بھی تھا۔ اُس دور میں کراچی ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہلانے لگا۔۔۔ یہ شہر 1980 ء کی دہائی تک اس لقب کا حامل رہا ، یہاں تک کہ اس کا انفراسٹرکچر مہندم ہونے لگا۔


آج کراچی کا شمار دنیا کے انتہائی گنجان آباد، آلودہ اورخطرناک شہروں میں ہوتا ہے۔


پاکستان میں پولینڈ کے فوجی


دوسری جنگِ عظیم کے بعد ،پولینڈ پر جرمنی کے قبضے کے دوران جب وہاں کے حالات خراب ہونے لگے تو1948ء میں پنتالیس افسر اور سائنسدان وہاں سے فرار ہوکر پاکستان آگئے۔ اُنھوں نے پاکستان کی نئی قائم ہونے والی مسلح افواج میں خدمات سرانجام دیں۔اُن میں سے بہت سے 1960ء کی دہائی تک ایئرفورس اور مسلح افواج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ درحقیقت پاکستان آنے والے پولینڈ کے ان شہریوں میں سے جوزف مارین ترویک(Jozef Marian Turowic) پاکستان ائیرفورس کے پہلے چیف سائنسدان تھے۔ اُنھوں نے ایوب خان کے دور (1958-69) میں ڈاکٹر عبداسلام کے ساتھ مل کر پاکستان کا خلائی پروگرام شروع کیا۔ اُنھیں پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزاز، ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ مسٹر ترویک پاکستان میں ہی رہے ۔وہ 1980 میں ایک کار کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔


پاکستان اور بھارت کا مشترکہ پارسپورٹ


1965 ء تک پاکستان اور بھارت ایک مخصوص ’’مشترکہ پارسپورٹ ‘‘ رکھتے تھے۔ یہ پاسپورٹ بنیادی طو رپر بھارت کے اُن سکھوں کو جاری کیے جاتے جو باقدگی سے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع اپنے مقد س مقامات کی زیارت کے لیے آتے تھے ۔ یہ پاسپورٹ اُن پاکستانیوں کے لیے بھی تھے جن کے خاندان کے کچھ افراد بھارت میں تھے ۔ تاہم 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ پاسپورٹ معطل کردیے گئے ۔


غرق شدہ قصبہ


1967 ء میں آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں دریائے جہلم پر ایک اہم ڈیم( منگلا ڈیم ) تعمیر کیا گیا۔تعمیر کے دوران پانی کی سطح بلند ہوئی اور کچھ دیہاتوں اور ایک اہم قصبہ زیرِ آب آگیا۔ کچھ دیر بعد وہ پانی میں مکمل طور پر ڈوب گئے ۔ کئی سالوں تک جب پانی کی سطح کم ہوتی تو غرق شدہ مکانات کے کچھ حصے دکھائی دیتے۔ ان میں سے کچھ حصے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں، گو ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ کچھ متجسس افراد غوطہ لگاکرغرق شدہ قصبے کی باقیات کی تحقیق کرتے ہیں۔


تنوع میں یکسانیت


اگرچہ پاکستان میں چار نسلی گروہ اہم اور نمایاں ہیں، لیکن درحقیقت پاکستان میں بسنے والے نسلی اور لسانی گروہوں کی تعداد پچیس کے قریب ہے ۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان پنجابی ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے ۔



کراچی اور گوادر میں رہنے والوں کے علاوہ بہت کم پاکستانی جانتے ہیں کہ پندرہ کے قریب جزیرے بھی ملک کی حدود میں شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جزیرے سندھ میں کراچی اور بلوچستان میں گوادر کے قریب بحیرہ عرب میں واقع ہیں۔ ان جزیروں میں سے کچھ کی تصاویر شائع کی جارہی ہیں۔


استولا جزیرہ


 یہ غیر آباد جزیرہ بلوچستان کی مچھلی بندرہ گاہ ، پسنی سے انتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔



بابا اور بھٹ جزیرے


یہ جڑواں جزیرے کراچی کے علاقے کیماڑی کا حصہ ہیں۔ یہ انتہائی گنجان آباد ہیں۔



بدو جزیرہ : کراچی کے ساحل سے دورہے۔ اس کی آبادی بہت کم ہے ۔


بندل جزیرہ : کراچی کے ساحل سے دورہے۔ اس کی آبادی بہت کم ہے ۔


چرنا جزیرہ: بلوچستان اور سندھ کے دریائے حب سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبادی بہت کم ہے ۔ حال ہی میں ا س کے قریب نیلی وہیل مچھلیوں کا ایک جوڑا دیکھا گیا۔



زلزلہ جزیرہ : 2013ء میں سمندر میں آنے والے زلزلے کے چند گھنٹو ں کے اندر اندر گوادر کی بندرگاہ کے قریب ایک جزیرہ نمودار ہوا۔ یہ مکمل طو رپر غیر آباد ہے ۔



گہری روحانیت


پنجاب کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ سالٹ مائنز دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے ۔ اس کان کے اندر ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے ۔ اس انتہائی خوبصورت مسجد کا شمار دنیا کی گہری ترین مساجد میں ہوتا ہے ۔



منگوپیر کے مگرمچھوں کی کہانی


کراچی کے منگوپیر کے علاقے میں ایک صوفی بزرگ کے مزار پر بنے ہوئے ایک گہرے تالاب میں ایک سو سے زائد مگرمچھ پائے جاتے ہیں۔


روایت کے مطابق ان مگرمچھوں کو بزرگ نے کوئی ایک ہزار سال پہلے یہاں ’’بلایا‘‘ تھا۔ عقیدت مند ان مگرمچھوں کو بزرگ کے پالتو اور محافظ سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں خوراک ڈال کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔


سائنسدانوں کو یہاں پانچ ہزار سال پرانی مگرمچھوں کی ہڈیاں ملی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں آنے والا کوئی سیلاب انہیں یہاں بہا لایا تھا۔ اس کے بعد وہ اس تالاب میں محدود ہوکر رہ گئے ۔


پاکستان کی سب سے ’’کیف آفریں برآمد‘‘


جولائی 2012 ء میں ہالی ووڈ سٹار ، بروس ویلس اور ڈیمی ویلس کی نوعمر بیٹی، سکاوٹ ویلس نیویارک میں کم عمری میں ڈرنک کرنے کی پادا ش میں گرفتار ہوئی۔ وہ پاکستانی بیئر، مری پی رہی تھی۔ پاکستان میں کشیدکردہ مشروبات تیار کرنے والی تین کمپنیاں ہیں: مری، کوئٹہ اور انڈس۔اپریل 1977 ء میں پاکستان میں مسلمانوں کو الکحل کی بنیاد پر بننے والے مشروبات کی فروخت پر عارضی پابندی لگادی گئی ۔ 1979 ء میں پابندی کا قانون بنایا گیا۔ مری پاکستان ایسے مشروبات تیار کرنے والی سب سے بڑی اور سب سے پرانی کمپنی ہے ۔ اس کا شمار ملک کی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں میں ہوتاہے ۔ اس کی مصنوعات پاکستان سے باہر بھی دکھائی دیتی ہیں، خاص طور پر یورپ میں کھولے گئے جنوبی ایشیا کے ریستورانوں اور برطانیہ کے پاکستانی سٹوروں میں۔ مس سکاوٹ نے ایسے ہی کسی سٹور سے مری خریدی تھی ۔



اصلی نسل کے آوارہ کتے


پاکستان میں ہزاروں آوارہ کتے پائے جاتے ہیں۔کم و بیش ان سب کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے ۔ یہ سماجی طور پر ناقابل قبول ہیں ہیں۔ ان میں سے اکثر گنجان آباد شہروں کی گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔ جب وہ تکلیف دہ بن جائیں تو پھر حکام کو ان کی تعداد کم کرنا پڑتی ہے ۔ ان کا تعلق کتوں کی ہزاروں سال پرانی نسل سے ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کتے جنوبی ایشیا میں قدیم زمانے سے موجود ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ آوارہ گھومنے والے جن کتوں کا رنگ سفید، یا سیاہ یا دھبے دار ہے ، وہ اُن کتوں کی نسل سے ہیں جو برطانوی حکام اپنے ساتھ لائے تھے ۔ چنانچہ جب بھی آپ کو پاکستان میں کہیں بھی براؤ ن رنگت کے علاوہ کوئی اور کتا دکھائی دے تو یقین کرلیں کہ اس کی رگوں میں برطانوی کتوں کاخون دوڑ رہا ہے ۔


 

بجلی کا کوندا


1979 ء سے لے کر 2000ء کے اتبدائی برسوں تک پاکسان نے دنیائے کرکٹ کے کچھ تیز ترین باؤلر پیدا کیے ، جیسا کہ عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس ، شعیب اختر اور محمد زاہد ۔ لیکن اکرم ، اختر، زاہد اور یونس سے پہلے ایک اٹھارہ سالہ لڑکے ، عتیق الرحمن نے کرکٹ کے میدانوں میں قدم رکھا۔ قدم کیا رکھا، ایک شعلہ تھا جو لپک گیا، ایک بجلی سی لہراگئی ۔ عتیق الرحمن میں دنیا کا تیز ترین بالر بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ جب عمران خان نے اُنہیں 1983 ء میں دیکھا تو اُن کا کہنا تھا کہ عتیق اُن سے بھی زیادہ تیز رفتار ہے۔ اُس سال پاکستان انڈر 19 کی طرف سے کھیلتے ہوئے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ میں عتیق کے خطرناک باونسرزنے سری لنکا کے تین انڈر 19کھلاڑیوں کو اہسپتال پہنچا دیا۔عتیق الرحمن کو 1984ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا، لیکن اُنہیں صرف ایک سائیڈ میچ میں کھلایا گیا۔ وہ تیز رفتار تھے، لیکن لائن اور لینتھ درست نہ تھی۔


اس کے علاوہ گرم مزاج بھی تھے ۔ تجربہ کار بالنگ کوچ، خان محمد کو عتیق کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ خان نے اُس کے بالنگ ایکشن کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نئے بالنگ ایکشن کے ساتھ عتیق کی رفتار پچاس فیصد کم ہوگئی ۔ اس کے بعد جب اُ س نے اپنے سابق ایکشن کے ساتھ بالنگ کرانے کی کوشش کی تو کامیاب نہ ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ سب کچھ بھول گیا ہے ۔ بعد میں کسی نے اس ہونہار فاسٹ بالر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ سنا۔


لومڑی نما آدمی یا عورت


مغرب کو اس کا 2014 ء میں پتہ چلا، لیکن وہ کئی عشروں سے کراچی کے چڑیا گھر میں تھا(تھی)۔ دوبرطانوی اخبارات ، جنہوں نے یہ کہانی شائع کی، اُسے ’’فاکس لیڈی‘‘ کا نام دیا۔ درحقیقت وہ ایک آدمی تھا جو اپنے چہرے پر بھاری بھرکم میک اپ کرکے اپنا سر ایک سوراخ سے باہر نکال کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک لومڑی کی کھال ، مع دم ہوتی ہے ۔ لوگ اُسے پیسے دیتے۔ اگر وہ کچھ مزید رقم دیتے تو وہ اُن کے ساتھ باتیں بھی کرلیتی ہے(کیونکہ وہ عورت کے میک اپ میں تھا)۔ اُسے ممتاز بیگم کے نام سے پکارا جاتاہے۔کراچی کا چڑیا گھر برطانوی راج کے دوران 1878 میں قائم کیا گیا ۔ جب 1947 ء میں کراچی پاکستان کا حصہ بنا تو یہ چڑیا گھر کراچی زوالوجیکل گارڈن بن گیا۔ اگرچہ برطانوی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ممتاز بیگم کو 1970ء کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ 1950 ء کی دہائی میں چڑیا گھر ’’لائی گئی تھی‘‘۔


یہ اچھوتا خیال چڑیا گھر کے ایک نگران کے ذہن میں ایک سرکس سے پیدا ہوا۔ اُسے ’’کراچی چڑیا گھر کی باتیں کرنے والی لومڑی ‘‘ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ بہت سے افراد نے یہ کردار ادا کیا۔ تاہم اسے زیادہ شہرت علی نامی ایک شخص نے دی ۔ اُس نے اس ’’لومڑی کے مختلف فیچرز ‘‘متعارف کرائے ، جیسا کہ سکول امتحانات ، ملازمت اور محبت کے نتائج کی پیش گوئی کرنا۔ علی کی ’’ممتاز بیگم ‘‘ کو بے حد کامیابی ملی ۔ اب اُس کے بعد اُس کا بیٹا، مراد یہ کردار ادا کرتا ہے ۔


ذرا اپنا بیٹ تو دینا۔۔۔


1996ء میں سترہ سالہ شاہد آفریدی نے ایک روزہ کرکٹ میں دنیا کی تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ اُنھوں نے یہ کارنامہ کسی اور کے بیٹ سے سرانجام دیا تھا۔ آفریدی کا یہ ریکارڈ اٹھارہ سال تک قائم رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آفریدی کو پاکستانی ٹیم میں ایک لیگ سپنر کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اُنہیں پہلے میچ میں نیچے کے نمبروں پر بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا ۔ تاہم دوسرے میچ میں اُنہیں اوپر کے نمبر پر بھیجا گیا، اور اُنھوں نے صرف 37 گیندوں پر سنچری داغ دی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اُس وقت تک آفریدی کے پاس اپنا کوئی مناسب بیٹ بھی نہ تھا۔ اُنھوں نے بیٹنگ کے لیے پاکستان کے فاسٹ بالر، وقار یونس سے بیٹ مستعار لیا تھا۔


سکہ بند راز


1998 ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے دو روپے کا سکہ جاری کیا۔ اس پر لاہور کی مغلیہ دور کی ایک یادگار، بادشاہی مسجد کا نقش تجویز کیا گیا۔ تاہم سکّوں کے اجرا کے کئی ماہ بعد لوگوں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ کچھ سکّوں پر بادل ہیں جبکہ کچھ پر نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا ہے ۔ اسٹیٹ بنک کو بھی پتہ نہ تھا۔ دونوں طرح کے سکّے گردش میں رہے یہاں تک کہ ایک عشرہ بعد دوروپے کا سکہ موقوف کردیا گیا۔


سورج کے ساتھ طلوع و غروب


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایک گاؤں کے تین بھائی ایک عجیب سے مسلے سے دوچار ہیں(جسے ابھی تک نام نہیں دیا گیا ہے)۔ وہ ہرروز صبح سورج نکلنے پر بیدار ہوتے ہیں، سکول جاتے ہیں اور پھر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ لیکن سورج کے غروب ہوتے ہی وہ مکمل طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنا جسم تک نہیں ہلا سکتے ۔ تمام رات اسی کیفیت میں رہتے ہیںیہاں تک کہ دوبارہ سورج طلوع ہوجاتا ہے ۔ اُن کی اس حالت نے سائنسدانوں کو بھی چکرا کر رکھ دیا ۔ وہ دنیا میں اس طرح کے کیس کی کوئی اور مثال ڈھونڈنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ میڈیا نے اس بچوں کو ’’سولر چلڈرن ‘‘ کانام دیا ہے ۔


انگریزی بولنے والوں کی تعداد 


بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے ۔