ایک وقت تھا جب خاندان کے بڑے بزرگ نوجوانوں کو تنبیہہ کیا کرتے تھے کہ وہ فارغ اوقات میں دکھی شاعری پڑھنے اور اداس نغمے سننے سے پرہیز کریں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ انسان کو قنوطیت کے طرف لے جاتے ہیں۔ ایک ایسے گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کاتب تقدیر سے شاکی ہونے لگتا ہے۔ اپنی ذاتی کوتاہیوں، خطاﺅں، ہڈ حرامیوں اور نالائقیوں کے نتیجے میں ملنے والی ناکامیوں کو تقدیر کی کم نصیبیوں اور خدا کی نا انصافیوں کا نام دینے لگتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعر لوگ عموماً عشق کے مارے، معشوق کے ٹھکرائے اور فراق یار کا درد رگ و پے میں اتارے ہوئے مایوس اور ناکام لوگ ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کی بھی بھلی چنگی زندگی کو پیاسے و تپتے ہوئے صحرا میں بدل دیتے ہیں۔ انسان کے رویے پر پژمردگی اور نا امیدی کی خاک ٹھہر جاتی ہے۔ زندگی رنج و محن کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس لئے وہ نوخیز عمروں کے بچوں اور بچیوں کو خواجہ میر درد و ساغر صدیقی جیسے شعراءکو پڑھنے اور مکیش و مناڈے جیسے گلوکاروں کو سننے سے باز رکھتے۔
’جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہوگا‘
پچھلے زمانوں کے لوگ واقعی کمزور دل کے، اعصابی طور پر ناتواں لوگ تھے۔ ہمارے بزرگوں کے بزرگ انہیں بتایا کرتے تھے کہ جس دور میں سنیما گھروں میں دیوداس فلم (پرانی) ریلیز کی گئی تو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے دل دیو داس اور پارو کی ناکام محبت کو دیکھ کر کچھ اس قدر پھٹ جایا کرتے کہ وہ دہاڑیں مار مار کے رونے لگتے۔ پرانے وقتوں کے لوگوں کے دلوں میں وارث شاہ کا قصہ ہیرسن کر بھی دکھی جذبات کی طغیانی امڈ آیا کرتی۔ درد، سودا یا رسوا کی اداس شاعری پڑھ کر گھنٹوں ملال و حزن کی تصویر بنے بیٹھے رہتے۔
یہ بھی پڑھیے: جون پر تنقید کریں، تنقید برائے تنقید نہیں
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہوگا
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں
جیسی شاعری جو انسان کی دل شکستگی اوربے آرزوئی کی طرف اشارہ کرتی ہے، ایسے اشعار سن کر لوگ سر دھنتے اور اپنی ناکام حسرتوں کا جذباتی و خیالاتی مداوا کر لیا کرتے۔ وہ اپنی نا آسودہ تمناﺅں کا رو دھو کر ماتم تو کر لیا کرتے لیکن کسی قسم کے سنگ دلانہ و ظالمانہ ردعمل سے خود کو باز ہی رکھا کرتے۔
اب چھوٹی چھوٹی باتیں یا معمولی حادثات ہمیں متاثر نہیں کرتے
آج کا انسان بظاہر مضبوط اعصاب کا مالک ہے یا دکھوں کا سوگ مناتے مناتے پتھر دل ہو گیا ہے۔ اب رونا دھونا اس کی زندگی سے خاصا کم ہو چکا ہے۔ اب چھوٹی چھوٹی باتیں یا معمولی حادثات اسے متاثر نہیں کرتے۔ شاید وہ کشت و خون کے ایسے دریا بہتے دیکھ چکا ہے کہ جذباتی و نفسیاتی طور پر بڑے سے بڑا حادثہ بھی چند منٹوں میں منظر بدل جاتے ہی اسے بھول جاتا ہے۔ وہ اعصابی طور پر اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ جمال خاشقجی کے جسم کے ٹکڑوں کی جاری تصویریں یا یمن میں مرتی ہوئی بچی امل کی ابھری پسلیوں کے پیچھے کسمساتی بھوک اور اس بھوک سے دم توڑتی ہلکی ہلکی سانسیں یا ایسے ہی انگنت شامی و فلسطینی بچوں کے ادھڑے زخموں کے مناظر بھی اسے انسانی المیوں پر دہاڑیں مار مار کے رونے پر مائل نہیں کر پائے۔ تو ہر روزایسے انسانی سانحوں کا تماشہ دیکھتے انسان بھلا دکھی شاعری سے متاثر ہو کر کس طور اپنی اپنی جان ختم کر سکتے ہیں۔
ماہرِ نفسیات کی سطحی تشخیص
پچھلے دنوں ایسے خیال کا اظہار ایک ماہر نفسیات کی طرف سے کیا گیا تھا کہ اگر نوجوانوں کو مایوسی میں خود کشی سے بچانا ہے تو انہیں جون ایلیا کی شاعری سے بچانا ہوگا۔ ان کا فرمانا تھا کہ
"بطور ماہر نفسیات مجھ سے برباد ہوئے لڑکوں کی ایک بڑی تعداد رابطہ کرتی ہے۔ ان میں سے اکثر لڑکوں کو یکطرفہ محبت دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے اور بہت سے وہ ہیں جنہیں محبوب مکمل طور پر نہیں ملتا یا مل کر چھوڑ جاتا ہے۔ یہ احساس انہیں اور بھی زیادہ برباد کرتا ہے"۔ ان لڑکوں میں جو ایک مشترک بات اس ماہر نفسیات کو اور بھی زیادہ باعث تشویش لگی وہ یہ تھی کہ وہ سب پریشان اور اداس کرنے والی شاعری خاص طور پر جون ایلیا کو پڑھتے ہیں۔ تو وہ بطور معالج ان لڑکوں کو سیشن کے اختتام پر خصوصی طور پر یہ لکھ کر دیتے ہیں کہ وہ اداس شاعری خاص طور پر جون ایلیا کو پڑھنے سے پرہیز کریں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالبعلم نے خودکشی کی تو اس کے ہم جماعت لڑکے نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے کہا کہ کیا آپ کچھ نہیں کر سکتے تو ان کا جواب تھا کہ لڑکے کے کمرے میں جائیں اور اس کی میز پر رکھی جون ایلیا کی کتابیں باہر پھینک دیں۔ تاکہ ہاسٹل مزید ایسے حادثات سے بچ سکے۔ گویا ایک شاعر کی شاعری نوجوانوں کے لئے بلیو وہیل اور نو لیک ان چیلنجز جیسے خونی کھیلوں کے برابر لا کھڑی کر دی گئی۔ اس کے اثرات کو موت کی طرف لے جانے کا باعث گردانا گیا اور اس شاعر کی کتابیں دریا برد کر دینے کی ہدایت جاری کی گئی۔
کسی بھی معاشرے میں سانس لیتا فنکار و تخلیق کار اپنے معاشرے کے ذہنی معیار سے بالاتر ہو کر سوچتا ہے
کسی بھی شاعر کا کلام نہ صرف اس کی ذاتی ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے، وہ اس کے حالات و واقعات کا ترجمان ہوتا ہے بلکہ وہ پڑھنے والے کے بھی حالات و واقعات کے قریب تر ہوسکتا ہے کیونکہ وہ اسی ماحول اور معاشرے کا عکاس ہے جہاں وہ شاعر اور وہ قاری دونوں سانس لے رہے ہیں۔ فرد کی نفسیات و جذبات، لکھنے والے کے تخیل و خیالات سے میل کھاتے ہیں۔ لیکن شاعر کا تخیل پڑھنے والے کے تخیل سے وسیع تر ہوتا ہے۔ وہ آفاقی سچائیوں کو باریک بینی سے جانچتا پرکھتا اور بیان کرتا ہے۔ اس کے لئے الفاظ و خیالات کا خوبصورت و باسلیقہ چناﺅ اہم ضرور ہوتا ہے لیکن وہ جو لکھتا ہے وہ بے اختیار ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سانس لیتا فنکار و تخلیق کار اپنے معاشرے کے ذہنی معیار سے بالاتر ہو کر سوچتا ہے۔ اس کا تخیلاتی و جذباتی اور ذہنی معیار بلند و خاص ہوتا ہے جس تک لوگ پہنچنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ تخلیق کار اپنے کام کی عالمگیریت کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کی آبیاری کے امکانات پر بھی نظر رکھتا ہے۔ وہ اس خاص ذہنی درجے کو برقرار رکھتا ہے جہاں تک اس کے معاشرے کے لوگ تھوڑی سی کاوش سے پہنچ سکیں تاکہ وہ معاشرتی تنزل کو بھی نمٹانے میں اپنا کردار ادا کر سکے اور لوگوں کی فکری و تخیلاتی ضرورتوں کو بھی بہم پہنچا سکے۔ وہ سماجی و عوامی ضروریات کی تکمیل کی راہ میں معیار کی وہ دیوار حائل نہ کرے کہ لوگ اس تک پہنچنے سے ہی معذور رہیں۔
ہم آگے بڑھنے کے تمام تر امکانات سے پہلو تہی اختیار کر کے خود اپنے آپ سے بھی راہ فرار اختیار کرنے لگے ہیں
لیکن اگر پڑھنے والے یا فن کو پرکھنے والے ایک خاص سطح سے آگے نہ جا سکیں تو پھر ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ کچھ اس قدر بھیانک طور پر ہیجان و کشمکش کا شکار ہو چکا ہے کہ وہ اس کی سطحی دیوار سے پرے جھانکنے سے بھی عاری ہے۔ ہمارے حالات ہمارے ذہنی معیار اور فکری شعور کو اس قدر ماﺅف کر چکے ہیں کہ ہم آگے بڑھنے کے تمام تر امکانات سے پہلو تہی اختیار کر کے خود اپنے آپ سے بھی راہ فرار اختیار کرنے لگے ہیں۔ یہ جہالت و بے خبری کا وہ درجہ ہے جس پر رہتے ہوئے کسی بھی فنکار و ادیب یا شاعر کے فلسفے تک پہنچنے سے پہلے ہی ہماری سوچ کے پر جلنے لگتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے ذوق کی تسکین یا فکر کی آبیاری کی بجائے سطحی درجے پر ہی اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ ہم گھبرائے ہوئے لوگ حادثات کا شکار ہیں یا حادثات کے منتظر۔ زندگی کی ترنمگی، جینے کے لامحدود امکانات، خواہشوں کی ٹوٹتی بنتی امید، جدائی کی حسن آفرینی، کھونے کا میٹھا میٹھا درد محسوسات کے جس بلند درجے تک لے جاتے ہیں ہم انہیں محسوس کرنے سے عاری ہیں۔
اگر وہ نفسیات دان اپنے علم و تجربے کی بنا پر معاشرے کا بھرپور مطالعہ کر لیتے تو انہیں بہت سی ایسی حقیقتوں کا ادراک ہو جاتا جو درپردہ اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہیں
کم سن نوجوان جو محبت کو ہی نہیں سمجھتے وہ محبت کے فراق کو کیا سمجھیں گے۔ اور اس غیر محسوس جذبے کے لئے جاں بلب کیونکر ہونے لگیں گے؟ وہ شاعری پڑھ کر خودکشی کرتے ہیں، اس خیال کا اظہار کرنے سے پہلے اگر وہ نفسیات دان اپنے علم و تجربے کی بنا پر معاشرے کا بھرپور مطالعہ کر لیتے تو انہیں بہت سی ایسی حقیقتوں کا ادراک ہو جاتا جو درپردہ اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ گہری اور گھمبیر حقیقتیں جو کہ ذہن کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان میں فرد کی موروثیت بھی کارفرما ہے اور اس کا فطرتی مزاج بھی۔ بچپن کے کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو کبھی کسی خوشی کا ادراک ہونے ہی نہیں دیتے۔ بعض اوقات اپنوں کا رویہ انسان کو شدید گھائل کر ڈالتا ہے کہ وہ اپنی جان کے خاتمے پر ہی آمادہ ہو جاتا ہے۔ والدین کا رویہ بھی فرد کی زندگی کو بے معنویت کی طرف لے جاتا ہے۔ ماں باپ سے شفقت کا نہ ملنا، اساتذہ سے توجہ اور حوصلہ افزائی کی عدم دستیابی دوست احباب کی کنارہ کشی بھی نوجوانوں کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ جب زندگی میں ایسی جذباتی وابستگیوں کی کمی رہ جاتی ہے تو فرد کے رویے عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا اپنے جذبات پر قابو عدم توازن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ پھر کسی محبوبہ کی بے وفائی یا بے التفاتی آخری تیر کا کام کر جاتی ہے۔
نظام کی مایوس کن حیثیت و کارکردگی پر بات ہونا چاہیے
نوجوانوں کا زندگی کے بارے حد سے زیادہ سوچنا اور اس سوچ میں ابھرنے والے سوالات کا جواب نہ مل پانا بھی ایسی قنوطیت و مایوسی کا شکار کرتی ہے جس سے نکل پانا مشکل ہونے لگتا ہے۔ ان کی اخلاقی و نفسیاتی تربیت اس طور نہیں کی جا رہی کہ وہ اپنے معاشرتی و سماجی حالات کو سمجھ سکیں اور آنے والے وقتوں میں ان سے مطابقت پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ نتیجتاً وہ حالات کی اونچ نیچ کے دوران ان کے سامنے ڈھال بننے یا ان کا مقابلہ بہادری سے کرنے کی بجائے اپنے جذبات پر قابو کھو دیتے ہیں۔ بے جا ڈانٹ ڈپٹ، نفرت، سختی، شخصی بے عزتی ان کی انا کو ایسے شدید دھچکے دیتی ہے کہ وہ مایوسی کے پاتال میں اترنے لگتے ہیں۔ اگر ایک نوجوان استاد کی ڈانٹ سے، امتحان میں ناکام ہونے کی خفت سے، یا نوکری ملنے کی ناامیدی سے اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے تو نوجوانوں میں ابھرنے والے نفسیاتی مسائل پر بات ہونی چاہیے۔ نظام کی مایوس کن حیثیت و کارکردگی پر بات ہونا چاہیے۔ ان سے وابستہ لوگوں کے مجموعی رویوں اور کردار پر بحث ہونی چاہیے۔ ایک ماہر نفسیات کو کسی شاعر کے کلام کو وجہ خودکشی کہنے کی بجائے معاشرے کے فرد کے کردار و نفسیات پر اثرات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے فکری وجذباتی عوامل پر بات کرنی چاہیے جو ان کا حقیقی کام بھی ہے اور اس سماج کی خدمت بھی۔