(بقلم عبداللہ ملک)
کئی دنوں سے نقیب اللہ کی ماروائے عدالت قتل پر سکون کی نیند نہیں آئی اور میں خود کو ہی مجرم ٹھراتا رہا کہ شائد ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ جب نقیب اللہ محسود کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے معصوم چہرے دیکھے جو میڈیا سے خوشی خوشی مخاطب تھے مگر اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یتیم ہوچکے ہیں۔ جمعرات کی شام کو نقیب اللہ محسود کے ماروائے عدالت قتل کے خلاف دھرنا جب اسلام آباد پریس کلب کی جانب رواں دواں تھا تو اسلام آباد پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی تھی مگر اس کے باوٗجود بھی سینکڑوں گاڑیوں کا لشکر اسلام آباد پریس کلب پہنچنے میں کامیاب ہوا اور پریس کلب کے احاطے میں ڈیرے ڈال دئیے اور شروعات اس بات سے کی کہ ہم کسی بھی تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ریاستی املاک کو نقصان پہنچائینگے اور نہ شاہرایں بند کرینگے بس ہم انصاف مانگنے آئے ہیں اور جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم ادھر ہی رہینگے۔ دوسرے دن رات گئے جب آفس سے فراغت ملی تو دھرنے کی جانب چلنے کا ارادہ کیا ۔ رات کے دس بجے تھے اور دھرنا تقریبا ختم ہوچکا تھا مگر دور کسی کونے میں لوگ سخت سردی میں بیٹھے اپنے اپنے درد سنا رہے تھے کہانیاں سنی تو ایسا لگا کہ نقیب اللہ محسود کا دھرنا ایک پلیٹ فارم تھا باقی سب اپنے اپنے درد لیکر آئے ہیں۔ درجنوں بزرگوں میں دور بیٹھا سر پر پگڑی سمائے سخت سردی سے ایک کمزور چادر میں پناہ لینے کی کوشش کرہا تھا۔ میں نے پوچھا بابا جی کہا ں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو تو آنسو تھے کہ روک نہیں پارہے تھے اُن کی سفید داڑھی پر آنسوؤں کے موتی نمودار ہوکر گم ہوتے رہے اور انھوں نے ایک ہی سانس میں پوری کہانی سنادی ۔ میرا نام نور بادشاہ ہے اور میرا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ ستائیس سال فوج میں نوکری کرکے قوم کی خدمت کی اور ہر قسم کی مشکلات برداشت کیں اور بڑے بیٹے کو مشکل سے پڑھایا تاکہ بڑھاپے میں زندگی کا سہارہ بن سکے۔ نور بادشاہ نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک کالج سے گریجویشن کی اور مزید ٹریننگ کے لئے ایلیمنٹری کالج جمرود چلے گئے جہاں ایک رات سیکورٹی فورسز نے چھاپہ مار کر اُن کو اپنے ساتھ لے گئے جب ہمیں یہ خبر ملی تو اسکی ماں پاگل ہورہی تھی اور میں سیدھا انصاف مانگنے کے لئے اپنے کچھ سابقہ افسروں کے پاس گیا مگر تفشیش میں معلوم ہوا کہ میرا بیٹا طالبان کے زخمیوں کے لئے خون فراہم کرتا تھا مگر میں نے اُن کو منتیں کرکے قسمیں کھائی کہ میرے بیٹے کا طالبان سے دور دور تک واسطہ نہیں مگر وہ نہ مانے اور دو مہینے جدائی کا عذاب گزارنے کے بعد اُن لوگوں نے اُن کو رہا کردیا اور اس نے ایلیمنٹری کالج کو خیر بہاد کہہ کر گھر میں سکونت اختیار کی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوا ہم نے اُن کو حوصلہ دیا اور وہ زندگی کی طرف مائل ہوتا گیا مگر وہ رات بہت بھاری تھی جب ایک رات ہم کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ سیکورٹی فورسز نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور دوبارہ اُن کو لے گئے جب کے بعد اُن کی ماں اُن کے پیچھے پاگل ہوگئی جبکہ میرے بیٹے کو تین ماہ کے بعد دوبارہ رہائی ملی مگر وہ سارا دن اپنے بستر پر پڑے رہتے ہیں اور زندگی کے پٹری سے اُتر گئے ، ایک طرف پورا گھر مسمار ہوا جس کے بعد ٹانک کے علاقے میں کئی سالوں سے پناہ لی ہے میں دھرنے میں اس لئے آیا ہو ں تاکہ کوئی میری دکھ بھری داستاں سن لے اور میرے ساتھ ہمدردی کرے۔
دھرنے کے پانچویں روز جب پختون برقعے میں ملبوس ایک خاتون نے سٹیج پر اپنا خطاب شروع کیا تو پورے مظاہرین روتے رہے اور محفل پر خاموشی کا سماں تھا۔ اس خاتون کا تعلق خیبر پختون خوا کے علاقے سوات مٹہ سے تھا اور وہ گزشتہ چھ سال سے انصاف کے لئے دربدر ہے۔ اُن کے دو بیٹوں کو جو کراچی میں محنت مزدوری کرتے تھے راؤ انوار نے ماورائے عدالت قتل کیا اور اُن کو اپنے غنڈوں کے ذریعے کراچی سے دربدر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہفتے تک اپنے بچوں کی لاشوں کے لئے خوار ہوتی رہیں مگر ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا جس کے بعد سوات سے ان کے دو بیٹوں کو حکومت نے اُٹھایا اور تاحال لاپتہ ہیں۔ انہوں نے درد بھرے انداز میں کہا کہ کیا کوئی ہے جو اس ریاست میں مجھے انصاف دے کیونکہ انصاف کی مانگ میں میری بینائی ضائع ہوچکی ہے۔
قبائلی ایجنسیوں سے آئے ہوئے متاثرین کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ وزیرستان آپریشن کے دوران جو بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں اُن کو صاف کیا جائے کیونکہ اُن کی وجہ سے سو سے زیادہ بچے یا تو مرچکے ہیں یا پھر معزور ہوچکے ہیں۔
ہماری ملاقات شمالی وزیرستان کے غزن خان سے ہوئی جو بارودی سرنگ کے دھماکوں میں دو بچوں کی معزروی دیکھ چکے ہیں۔ غزن خان کہتے ہیں ہم نے تو گھر بار اس لئے چھوڑا تھا کہ امن قائم ہوجائے گا جس کے بعد ہم سکون کے ساتھ زندگی گزاریں گے مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بے رحم بموں کی خوراک ہمارے بچے بنیں گے۔ یہ گرمیوں کی دوپہر تھی جب میرے بچے کھیلنے کے لئے باہر چلے گئے جب اُنھوں نے وہاں ایک کھلونا بم اُٹھایا اور اُن سے کھیلنے لگے جس کے بعد وہ بم دھماکے سے پھٹ گیا اور میرے دونوں بچے معزور ہوگئے۔ نہ صرف اُن کی زندگی عذاب ہے بلکہ ہماری زندگی بھی عذاب ہوچکی ہے اور دل میں یہی دعا تھی کہ معزور ہونے کی بجائے خدا نے انہیں اپنے پاس کیوں نہ بلا لیا کیونکہ ہم تو سینکڑوں جنازے اُٹھا چکے ہیں اور جنازے اُٹھانے کے عادی ہیں یہ دو جنازے اور سہی۔
اسلام آباد کے ان مظاہرین میں لوگوں کے چہرے سے درد ٹپکتا ہے۔ بمشکل کچھ لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ ان پندرہ سالوں میں ان لوگوں پر کیا بیتی اور زندگی ان کے لئے کس چیز کا نام ہے۔ ہماری ملاقات شمالی وزیرستان کے علاقہ مکین نور ولی خان سے ہوتی ہے جس نے گھر کی مسماری کے بعد اُس کا سامان بھی کھو دیا۔ علاقہ ماضی میں طالبان کا اہم مرکز سمجھا جاتا تھا مگر سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد اسے طالبان سے آزاد کیا گیا مگر علاقے کے رہنے والوں سے سائبان اور چھت چھین لیے گیے تو دوسری طرف نور ولی خان محسود کہتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے مکین روانہ ہوئے تو دل میں ایک ہی اُمید تھی کہ امن قائم ہوگیا، اب ہم اپنی زمین پر سانس لینے کے ساتھ ساتھ دفن بھی ہوتے جائیں گے۔ مگر جیسے ہی میں اپنے علاقے میں داخل ہوا تو دور دور تک میرے گھر کے آثار نظر نہیں آرہے تھے محض اس گھر کے چند پتھر ہی پڑے تھے جس پر میں نے زندگی بھر کا اثاثہ خرچ کیا تھا۔ میرا گھر مسمار ہوگیا تھا اور میں اس کی ڈھیر پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگا کہ اے اللہ آپ نے مجھے کس اذیت میں ڈال دیا، جس کو برداشت کرنے کی ہم میں سکت ہی نہیں۔ ہمارے گھر کے ملبے کے ساتھ ساتھ میرے گھر کےسامان، کھڑکیوں، دروازوں ، اور دوسری چیزوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ اب ہم وزیرستان میں کیا کریں گے کیونکہ نہ ہمارا گھر باقی رہا اور نہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ ہے جس کو ہم آباد کرسکیں اور نہ حکومت ہمیں معاوضہ دے رہی ہے کہ ہم اپنے گھر کو بنا سکیں۔ نورولی خان کہتے ہیں وزیرستان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے بس قبرستان وسیع ہوچکے ہیں اور زندگی کسی مقبرے میں گزارنے کی مانند ہے جہاں بولنے پر پابندی ہے کیونکہ میں اکثر سوچتا ہو کہ ہم تو انسان نہیں روبوٹ ہیں جس کا ریموٹ کسی اور کے پاس ہے، وہ جب چاہے بٹن دبا کر ہمیں خاموش کرسکتے ہیں جب چاہے نکال سکتے ہیں جب چاہے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔