پاکستان کے اُن ہیروز کی فہرست بہت طویل ہے جن کے کارناموں کو سراہا نہیں گیا۔ صحافی عبداﷲ ملک ایک نوجوان کی کہانی رپورٹ کرتے ہیں جس نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اُس کا خاندان غیر محفوظ ہے۔ اُنہیں تحفظ درکار ہے ۔
یہ چھے جنوری 2014 کو سوموار کی صبح تھی ۔ جب سورج کی پہلی کرنوں ضلع ہنگو کے ابراہیم ضئ گاؤں کے پہاڑوں کو چھواتو لوگ پہلے ہی جاگ چکے تھے۔ کچھ اپنے کاموں کے لیے گھروں سے باہر تھے ۔ بازار کے دوکانداردوکانوں کے شٹرز اوپر کر رہے تھے ۔ شہری مارکیٹوں کی طر ف جارہے تھے ۔ اور اس دوران گاؤں کے گورنمنٹ ہائی سکول میں صبح کی اسمبلی ہورہی تھی۔ اعتزاز حسن پہلے بھی کئی مرتبہ تاخیرسے آتا تھا۔ اسی طرح اُس کے دوست شاہزیب اور ذوہیب بھی۔ تینوں طلبہ کو یقین تھا کہ اُن کے اساتذہ اُنہیں دیر سے آنے پر سزا دیں گے ۔ شاہزیب اور ذوہیب نے جلدی سے سڑک پار کرلی ، لیکن اعتزاز حسن اُن سے کئی میٹر دور تھا۔ وہ اپنے جسمانی وزن کی وجہ سے دوستوں جتنا تیز نہیں چل سکتا تھا۔ اُس وقت اُن کی نظر ایک اور لڑکے پرپڑی۔ اُس کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی۔ وہ سکول یونیفارم پہنے ہوئے تھا، اور سکول کی طرف جارہا تھا۔ شاہزیب کو کچھ شک گزرا، اور اُس نے پوچھا، ’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ ’’میں سکول جارہا ہوں‘، لڑکے کا جواب تھا۔ ’’لیکن میں نے اس سے پہلے تمہیں کبھی سکول میں نہیں دیکھا‘‘، شاہزیب اُس کے جواب سے متاثر نہ ہوا۔ ’’میں یہاں داخلہ لینے جارہا ہوں‘‘، لڑکے نے جواب دیا۔ شاہزیب مطمئن نہیں تھا۔ ’’اس ماہ سکول میں نئے داخلے نہیں ہوتے ہیں‘‘ پھر اُس نے نئے لڑکے سے کہا، ’’یہاں ٹھہرو۔ میں سکول کے ہیڈماسٹر صاحب کو مطلع کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کراُس نے سکول کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ نیا لڑکا بھی اُس کے پیچھے آرہا ہے تو وہ رکا اور اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے پیچھے دھکیلا۔ ایسا کرتے ہی اُسے احساس ہوا کہ لڑکے کے سینے پر کوئی دھاتی مواد ہے ۔ اُس نے اپنے دوست اعتزاز کو آواز دی: ’’خدابخش‘‘۔ اور پھر اُس نے شور مچادیا کہ یہ ایک خود کش بمبار ہے ۔ پھر اُس نے سکول کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ اعتزاز نے خود کش بمبار کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ اُس نے ایک گرم چادر اُوڑھی ہوئی تھی۔ اعتزاز نے اپنی چادر اتار پھینکی اور ایک بھاری پتھر اُٹھا کر حملہ آور کو مار گرانے کی کوشش کی، لیکن وہ اُسے روکنے میں ناکام رہا۔ اس پر وہ حملہ آور کی طرف لپکا اور اُسے اپنے مضبوط بازوں میں جکڑ لیا۔ جب خود کش حملہ آور نے دیکھا کہ وہ اس آہنی گرفت سے نہیں نکل پارہا تو اُس نے خود کش جیکٹ کا بٹن دبا دیا۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ دونوں جسموں کے ٹکرے کئی سو میٹر تک بکھرگئے۔
اعتزاز کا بڑا بھائی، مجتبیٰ گہرے غم میں ڈوب کر یہ کہانی بیان کرتا ہے ۔ اُس کی نیلی آنکھیں آنسووں سے بھر ی ہوئی ہیں۔
مجتبیٰ کا کہنا تھا : ’’جب میں نے دھماکے کی آواز سنی تو میں کمرے سے باہر آگیا۔ میں نے اپنی والدہ کے چیخنے کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ، تو اُنھوں نے کہا کہ اعتزاز ابھی ابھی گھر سے باہر گیا ہے ، اور اُنہیں خدشہ تھاکہ کہیں وہ دھماکے میں زخمی نہ ہوگیا ہو۔ میں نے کہا کہ خدا کے لیے صبح صبح ایسی بات نہ کریں،لیکن وہ روتی رہیں، ’میرے اعتزاز کی خبر لو۔ میرے دل کو کچھ ہورہا ہے ۔‘ میں گھر سے باہر گیااور پھر سکول کی طرف دوڑ لگادی۔ درجنوں افرادسکول کے باہر جمع تھے ۔ہر کوئی مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے پوچھا، ’کیاہوا ہے ؟‘کسی نے جواب نہ دیا۔ جب میں نے متعدد بار پوچھا تو ایک رشتے دار نے مجھ سے پوچھا، ’کیا تم یہ خبر برداشت کرسکتے ہو؟میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اُس نے بتایا کہ اعتزاز دھماکے میں شدید زخمی ہوگیا ہے ۔ میں صدمے کے عالم میں زمین پر بیٹھ گیا، اپنے پاؤں پکڑلیے، لوگوں سے کہا کہ مجھے تھوڑا سا پانی دیں۔ وہ مجھے اہسپتال لے گئے جہاں میرا بھائی ، میرا جان جگر، ہمیشہ کی نیند سورہا تھا۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتہ کیا ہوا ۔۔۔‘‘ اعتزاز 1995 ء میں ہنگو ضلع کے ابراہیم ضیا گاؤں میں مجاہد علی بنگش کے گھر پیدا ہوا۔ مجاہد علی بنگش متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اُن کے چار بچے ہیں: دوبیٹیاں اور دو بیٹے(اعتزاز اُن میں سے ایک تھا)۔ ہنگو کا علاقہ کافی عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے ۔ زیادہ تر شیعہ مخالف انتہا پسند تنظیمیں افغانستان میں سوویت مداخلت کے خلاف چلنے والی جہادی تحریک کی پیداوار ہیں۔کئی برسوں سے شیعہ کمیونٹی نے بھی فرقہ وارانہ تشدد کا انہی کے سکّوں میں جواب دیا ہے ۔ 2006 ء میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اعتزاز کے گھر کو ا یک میزائل سے نشانہ بنایا گیا لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔
مجتبیٰ اپنے بھائی اعتزاز کے حوالے سے کچھ خوبصورت باتوں کو یاد کرتا ہے ۔ اعتزاز کوکھانا اور سونا بہت پسند تھا۔ اُسے شکار کابھی شوق تھا۔ اُسے امید تھی کہ ایک روز وہ مسلح افواج میں شمولیت اختیار کرلے گا۔
جب وزن کم کرنے کے اُس کا ڈائٹ پلان بنایا جاتا تو وہ گھر والوں کے سامنے اس پر عمل کرتا لیکن دادای اماں کے کمرے میں جا کر تمام کسر نکال لیتا۔
اعتزاز کو شکار کا شوق تھا لیکن اُس کا بڑ ا بھائی مجتبیٰ اُسے کبھی شکار پر لے کر نہ گیا کیونکہ وہ جسمانی طو رپر اس قسم کی مہم جوئی کے موزوں نہ تھا۔ ایک روز والدہ نے مجتبیٰ کو حکم دیا کہ وہ اعتزاز کو ضرور ساتھ لے کر جائے ۔ جب وہ روانہ ہوئے تو اُس نے اعتزاز سے کہا وہ اُن کے لیے ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل ساتھ لے لے۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد جب مجتبیٰ کو پیاس لگی اور اُس نے اعتزاز سے پانی مانگا تو چھوٹے بھائی نے معصومانہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’ بوتل تو ختم ‘‘۔ وہ تمام بوتل پی چکاتھا۔ بڑے بھائی کو بہت غصہ آیا، لیکن وہ اپنے ’’چھے فٹ کے دراز قامت چھوٹے بھائی ‘‘ کو نہیں مار سکتا تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اعتزا ز کو کبھی ساتھ لے کر نہیں جائے گا۔
وہ محرم میں عشورہ کا تعزیہ نکالتے تھے ۔
اعتزاز کے ہم جماعت اکثراُس کے فربہ پن کا مذاق اُڑاتے ۔ وہ اکثر اُس سے پوچھتے، ’اگر کوئی خود کش بمبار آگیا تو کیسے بھاگو گے ؟‘
کون جانتا تھا کہ اعتزاز خود کش بمبار، جو دوسروں کو ہلاک کرنے آیا تھا، سے ڈر کر دور نہیں بھاگے گا۔
اُس وقت اعتزازکے والد صاحب یواے ای میں تھے، اور وہ اپنے بیٹے کے جنازے کو کندھا دینے وطن واپس نہ آسکے ۔ مجتبیٰ نے بہت مشکل سے اُنہیں ا س جانگسل صدمے سے آگاہ کیا ۔
ہر شام، ہر کھانے پر خاندان کے افراد اپنے پیٹو بھائی اور اُس کی دلیری کویاد کرتے ہیں۔ والدہ کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ لیکن یہ سوچتے ہوئے کہ اُس نے اتنی چھوٹی عمر میں کتنی بڑی قربانی دی ہے ، وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہیں۔
مجتبیٰ کا کہنا ہے : ’’میڈیانے میرے بھائی کو شہید اور وطن کا ہیرو قرار دیا۔ صدرِ پاکستان نے اُسے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز، ستارۂ جرات سے نوازا۔ لیکن اعتزاز کی شہادت کے تین ماہ بعد ہمیں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ایک خط ملا۔ ہمیں کہا گیا کہ ہم اعتزاز کو شہید یا ہیرو قرار دینا چھوڑ دیں کیونکہ وہ شہید نہیں تھا۔ یہ خط مارکیٹ کے ایک دوکاندار کے حوالے کیا گیا۔ اُسے حکم دیا گیا کہ خط مجا ہد علی بنگش تک پہنچا دے ۔ ہم نے ایف آئی آر درج کرائی اور ہنگو انتظامیہ سے سکیورٹی مہیا کرنے کی درخواست کی۔ اب ہمارے خاندان کی حفاظت کے لیے دوپولیس مین تعینات کیے گئے ہیں۔ لیکن ہم خطرے کی زد میں ہیں۔
خیبرپختونخواہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہنگو کے دو ڈگری کالجز اور کرکٹ اسٹیڈیم کو اعتزاز سے منسوب کیا جائے گا لیکن یہ وعدے پورے نہ کیے جا سکے ۔ اب میرے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمام اعزازات اور زر تلافی حکومت کو واپس کردیں گے کیونکہ وہ ہمارے پیارے بھائی کی عظیم قربانی کو بھول چکے ہیں۔ اُن کے نزدیک میرے بھائی کے خون کے قیمت پانچ ملین روپے تھی، جو خیبر پختونخواہ حکومت نے فراہم کی۔ میرے بھائی نے اس قوم کے لیے قربانی دی تھی، لیکن نہ تو چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف، عمران خان اور نہ ہی وزیرِ اعلیٰ نے ہمارے گھر آنے اور ہمیں دلاسہ دینے کی زحمت کی ۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اعتزاز کے اہلِ خانہ کوہر ماہ کچھ رقم دی جائے گی، لیکن اعتزاز کی چوتھی برسی گزر گئی، خاں صاحب کا وعدہ وفا ابھی باقی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور این جی او کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افرا دنے وعدہ کیا تھا کہ اعتزاز کے خاندان کے نقصان کی تلافی کے لیے فنڈزاکھٹے کریں گے لیکن اپنی تشہیر کے لیے کچھ تصاویر بنانے کے بعد اب وہ ہماری فون کالز تک نہیں سنتے ۔‘‘
اس نوجوان ہیرو کی فیملی کا اب پاکستا ن میں رہنا ناممکن ہوچکا ہے ۔ مجتبیٰ پاکستان چھوڑ کر اپنے والدین کے ساتھ کسی اور ملک چلے جانا چاہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے ، ’’سکیورٹی گارڈ اور خطرے کے سائے میں زندگی گزارنا ناممکن ہے ۔ میرا بھائی بیرونی دنیا کے لیے ایک ہیرو ہے ، لیکن اس ملک کے لوگوں نے اعتزاز حسن شہید کی قربانی کو بھلا دیا ہے ۔ ‘‘