پاکستان کی ستم زدہ مسیحی برادری 2018 ء میں توہین کے پہلے کیس کا سامنا کرتی ہے

پاکستان کی ستم زدہ مسیحی برادری 2018 ء میں توہین کے پہلے کیس کا سامنا کرتی ہے

رابعہ محمود پاکستان کی مسیحی برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور اُنہیں منظم طریقے سے تشدد کا نشانہ بنانے پر قلم اٹھاتی ہیں۔


بیس فروری کوایک مسیحی نوجوان کو پولیس کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا گیا ۔ اس کی وجہ اُس کی ’’توہین آمیز مواد ‘‘ پر مبنی فیس بک پوسٹ تھی ۔ پطرس مسیح کا تعلق شاہدرہ سے ہے ۔ یہ شمالی لاہور کا مضافاتی علاقہ ہے ۔ شاہدرہ میں چند سو مسیحی خاندان آباد ہیں۔ ان میں پطرس کے اہلِ خانہ، اُس کے والدین اور بہن بھائی بھی شامل ہیں۔ جب تناؤ بڑھا اور مشتعل ہجوم کے مقامی مسیحیوں پر حملے کا خطرہ پیدا ہو ا تو بہت سے مسیحی خاندان اپنے گھروں کو تالے لگاکر فرار ہوگئے ۔


 


 

پطرس مسیح نے فیس بک گروپ، ’’پاگلوں کی بستی‘‘ پر مبینہ طور پر ایک توہین آمیز تصویر پوسٹ کی تھی ۔ اس فیس بک گروپ میں مسلمان بھی شامل ہیں اور غیر مسلم بھی ۔ قاری اویس نامی ایک شخص نے پطرس کے خلاف 295 C کے تحت درخواست دی۔ جب اُسے پتہ چلا اُس کے توہین آمیز فعل کی کہانی بہت آگے بڑھ چکی ہے تو وہ غائب ہوگیا۔ تاہم درخواست دہندہ ، جسے ایک انتہا پسند گروہ، تحریک لبیک یارسول اﷲ کی پشت پناہی حاصل ہے ، کی طرف سے خطرناک نتائج کی دھمکیاں ملنے کے بعد مسیحی خاندانوں کے بڑوں نے پطرس کے اہل خانہ کو حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے قائل کرلیا۔





 

مقامی اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پطرس کی گرفتاری کو ایک طرح کی کامیابی سمجھا گیا کیونکہ اس کی وجہ سے علاقے کا امن برہم نہیں ہوا تھا۔ کسی کوبھی پروانہیں ہوگی کہ ایک مسیحی نوجوان اور اُس کے اہلِ خانہ کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے ۔ پطرس مسیح محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ہے ۔ وہ سکو ل کی تعلیم مکمل نہیں کرسکا تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی طرح صفائی کا کام کرتا ہے ۔ یہ پیشہ کم آمدنی رکھنے والے مسیحیوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے ۔ مسلمان صفائی کی خدمات سرانجام دینے والے مسیحیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اُن کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ مذہبی بنیادوں پر توہین کا الزام ایسے ہی کم آمدنی رکھنے والے مسیحیوں پر لگایا جاتا ہے ۔ انہی کی بستیوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ جیسے اُن پر غربت کا تشدد کم ظلم نہ تھا۔


 

اقلیتیں، ٹیکنالوجی اور آزادئ اظہار


گزشتہ دو برسوں کے دوران تین مسیحی افراد، نبیل مسیح، عثمان مسیح اور ندیم جیمز پر فیس بک اور واٹس ایپ پوسٹس کی وجہ سے توہین کے الزامات لگے ۔ جیمز کو2017 ء میں سزائے موت سنائی گئی۔ 2014 ء میں صوبہ پنجاب میں ایک مسیحی جوڑے کو اسلام کے بارے میں مبینہ طور پر توہین آمیز پیغامات بھیجنے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی ۔ ان تمام کیسز سے ثابت ہوا کہ ٹیکنالوجی تک معمولی سی رسائی بھی سماجی اور سیاسی طور پر دھتکاری ہوئی اس مظلوم اقلیت کے خلاف استعمال ہوئی۔ 2017 ء میں حکومت نے توہین آمیز مواد کی آن لائن تشہیر کرنے والوں کے خلاف سخت وارننگ دینے سلسلہ شروع کیا ۔ اُس وقت سے لے کر اب تک آن لائن ابھرنے والی اختلافی آوازوں کو دبانے کی ایک بھرپور مہم جاری ہے ۔ تاہم ان اقدامات کی وجہ سے یہ خوف مزید گہرا ہوگیا ہے کہ توہین کا سلسلہ بڑھ گیا ہے ۔ اب ہر مخالف سوچ رکھنے والے شخص پر توہین کا شک کیا جاتا ہے ۔ اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع سے عوام کو آگاہی دینے والے پیغامات انتہا پسندی اور جنونیت کو بڑھا رہے ہیں۔ اس طرح ریاست نے اس بات کو یقینی بنا لیا ہے کہ اس مظلوم اقلیت کے خلاف ڈیجٹیل دنیا بھی تشدد کے حربے کے طور پر استعمال ہو۔ عملی زندگی میں روا رکھی جانے والی نفرت اور ڈھایا جانے والا ظلم اب’’ آن لائن ‘‘ ہے ۔ کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ پاکستانی اقلیتیں ایک فون کرتے ہوئے، کسی پوسٹ کو پسند کرتے ہوئے، کسی فوٹو کو شیئر کرتے ہوئے، سیلفی لیتے ہوئے ، واٹس ایپ یا ٹیکسٹ پیغامات بھیجتے ہوئے آزادئ اظہار سے محروم ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے جو بھی جگہ باقی تھی، تشدد کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے ۔


اپنی ہی بستیوں میں غیر محفوظ


حالیہ برسوں کے دوران لاہور کے بہت سے مسیحی افراد گروہی تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ کچھ کے لیے راہِ فرار اختیار کرنا ہی ’’محفوظ ‘‘ آپشن ہے کیونکہ اُن کے گھر اُن کے لیے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ مجھے دو انتہائی سفاک کرسچن مخالف واقعات یاد آرہے ہیں۔ مارچ میں پیش آنے والے ان دونوں واقعات میں اُنہیں اپنی بستیاں چھوڑ کر فرارہونا پڑا۔ مارچ 2013 ء کو مسلمانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے جوزف کالونی پرحملہ کیا۔ اس کی وجہ ایک مسیحی شخص پر توہین کا الزام تھا۔ اس کے بعد مارچ 2015 ء میں ایک مسیحی بستی یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر بم حملے کیے گئے ۔ اس سفاکی اور ریاست کی بے حسی کی وجہ سے مسیحی طبقے سے تعلق رکھنے والے جو افراد ملک چھوڑ کر جاسکتے تھے، جاچکے ہیں۔ 2015 ء کے یوحنا آباد حملوں کے بعد احتجاجی مظاہرے کے دوران دو مسلمان نوجوان ہلاک ہوگئے ۔ پنجاب پولیس نے کئی ماہ تک کریک ڈاؤن کیا، سینکڑوں مسیحی افراد کو گرفتار کیا، اور ان میں 43 پر قتل کا الزام لگا۔ ان میں دو افراد، اندریس مسیح اور عثمان شوکت جیل میں ہی خراب صحت کی وجہ سے مرگئے ۔


اجتماعی اذیت


پنجاب کی مسیحی آبادی جبرِ مسلسل کا شکار ہے۔2005ء میں سانگہ ہل اور اسلام آباد کے گرجا گھروں پر حملے کیے گئے ، 2009 ء میں گوجرہ میں ان کے گھروں کو جلا دیا گیا، آسیہ بی بی کی نہ ختم ہونے والی قید نے اُن کی زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں۔ یہ انتہائی غیر انسانی صورتِ حال ہے ۔ پطرس مسیح جیل میں ہے ۔ اُن کے اہلِ خانہ گھروں میں واپس آسکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ شاہدرہ اور دیگر مقامات پر یہ کمیونٹی ’امن ‘ کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’امن ‘‘ کا دامن تھامتے ہوئے ان اس مرتبہ اُن کے گھروں پر حملے نہیں کیے گئے ۔ علما نے اشتعال نہیں پھیلایا ۔ بپھرا ہوا ہجوم بستیاں تاراج کرنے نہیں نکلا ۔ یہ ہے امن و استحکام ! ہمارے ہاں اسی زندگی کو ’’جینا ‘‘ کہتے ہیں۔