میں بقلم خود احتشام الحق جب صبح اٹھا تو میرے ذہن میں گزشتہ سال کی طرح جو توپ کے نکلتے گولے اور زوردار دھماکے کی آواز کانوں میں میں گونج رہی تھی۔ لیکن اس سال واٹس ایپ پر آئے پیغامات کرونا کے خوف کے تھے جو آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ میں اپنے ارگرد ایسا ماحول دیکھ رہا تھا کہ کہیں میں بھی کرونا کا شکار نہ ہوجاوں۔ میرے دل ودماغ کی لیبارٹری میں جو ٹیسٹ ہور ہے تھے وہ سب مثبت (Positive) تھے، جیسے اس سال کرونا کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
حکومت کے حرکت میں آتے ہی اب لاہور شہر لاک ڈاون ہونے کی وجہ سے خاموش اور ویران نظر آتا ہے۔ مال روڈ آج بھی ایسے لگ رہاہے جیسے کبھی خودکش دھماکوں کے بعد سنسان ہوا کرتا تھا اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات ہوتے تھے آج کرونا کی وبا کا خوف بھی میرے لیے خود کش دھماکوں سے کم نہیں ہے۔ مال روڈ آج بھی خود کش دھماکوں والا منظر ہی بیان کر رہا ہے، ہر طرف خاموشی اور ویرانی نظرآتی ہے۔ سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی ویسے ہی تعینات ہیں۔ مال روڈکی چمچماتی دوکانیں اور رونقیں آج کرونا کے خوف سے ماند پڑی نظر آتی ہیں
اس مشکل گھڑی میں گلبر گ جاتے ہوئے نجانے وہ کون تھا جو شیر پاؤ پل کے ساتھ سروس روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھے مستحق افراد میں کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ میں یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ کوئی اللہ کا بندہ ہے جو اس مشکل گھڑی میں غریب اور نادار لوگوں میں کھانا تقسیم کر رہا ہے۔ میں وہاں سے سیدھا اپنے نجی نیوز آفس پہنچا اور بیٹھ کر خبر بنانے میں مگن ہوگیا کہ شہر کے 3 بڑے سرکاری ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں موجود 33 افراد کی لاشیں موجود ہیں۔ سرکاری اسپتال انتظامیہ کے مطابق کرونا کے باعث پولیس اہلکار بھی شناخت کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ خبر کے مطابق لاک ڈاؤن کے دس روز کے دوران 33 میں سے 30 لاشیں نشئی افراد کی ہیں۔
تاہم شہر میں کوئی بھی موت بھوک کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ شہر میں ناجائز دھندہ کرنے والے چھپ کر بیٹھ گئے لیکن مولیٰ کے مہرباں بندے زمیں پر اتر آئے اور انسانیت کے فلسفہ کو پروان چڑھانے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں کرونا کے باعث اموات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا کے آفٹر شاکس کے بعد دنیا ہی بدل جائے گی۔