ملک کے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی حالیہ کتاب اقتدار کی مجبوریاں نے پاکستانی صحافتی و سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اس میں ریاست و سیاست کے بڑے پہلوانوں کے بارے میں بڑے بڑے انکشافات ہیں اور ایسے دلچسپ واقعات ہیں جس کو سن کر عوامی سطح پر ایوسن اقتدار کے بہت سے پردے چاک ہوتے ہیں۔
یہ کتاب تو پاکستان میں مل نہیں رہی۔ تاہم معروف صحافی جاوید چوہدری نے اپنے کالمز کی سیریز میں اس کتاب کے اقتباسات سے متعلق انکشافات کیئے ہیں۔ انہی انکشافات کے سلسلے میں انہوں نے کتاب میں جنرل اسلم بیگ کی بیگم اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما الطاف حسین کے درمیان ہوئے ایک دلچسپ مکالمے کا ذکر کیا ہے۔ جس سے معلوم پڑتا ہے کہ الطاف حسین بڑے بڑوں کی بیگمات سے کس انداز تکلم میں مخاطب ہوتے ہیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ جنرل اسلم بیگ نے الطاف حسین کے بارے میں بھی ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا‘ ان کا کہنا تھا مجھے پیغام ملا ایم کیو ایم کے قائد میرے گھر میں مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں‘میں نے بلا لیا‘ وہ آئے اور ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے‘ کھانا کھاتے ہوئے الطاف حسین نے میری بیگم سے پوچھا ’’بیگم صاحبہ آپ نے کون کون سی ڈش بنائی ہے‘ میں جہاں جاتا ہوں بیگمات اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی ڈشیں تیار کرتی ہیں‘‘ میری بیگم نے تڑاخ سے جواب دیا’’میں تو جنرل صاحب کے لیے کوئی ڈش نہیں بناتی آپ کو یہ کیسے گمان ہو گیا میں آپ کے لیے بناؤں گی‘‘ الطاف حسین لقمہ منہ میں ڈال رہے تھے۔
ان کا ہاتھ رک گیا‘ پانی پیا اور جانے کی اجازت چاہی۔
الطاف حسین اور جنرل اسلم بیگ کا تعلق
ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کے حوالے سے بی بی سی پر شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق 1989 کی بات ہے جب اسلم بیگ آرمی چیف تھے۔ انھوں نے مدعو کیا تو میں(آفاق احمد) الطاف حسین اور یوسف ایڈووکیٹ یونس حبیب (مہران بینک سکینڈل والے) کے گھر گئے تھے۔
وہاں اسلم بیگ نے الطاف حسین سے کہا ’بھئی، قومی دھارے کی سیاست کیجیے۔ اب آپ لسانی سیاست کو خیرباد کہہ دیجیے۔ آپ کا آگے مستقبل ہے۔
آفاق احمد کے مطابق جنرل بیگ کی اس بات پر الطاف حسین نے رسماً کہا کہ ’جناب، ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں‘ تو اسلم بیگ نے یونس حبیب سے کہا اور یونس حبیب نے فوراً پیسے دے دیے۔
آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ واپس آتے وقت انھوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی الطاف حسین سے کہا ’آپ نے قومی دھارے کی سیاست کی بات کی ہے تو اگر آپ مہاجر تحریک کو ختم کر کے قومی دھارے کی سیاست کسی اور نام پر کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ پھر ہم آپ کے ساتھ نہیں کھڑے رہیں گے۔‘
مظہر عباس سمیت کئی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ فوجی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے مقابلے پر اپنے حامیوں پر مشتمل حزب اختلاف کا بلاک قائم رکھنا چاہتی تھی۔
جنرل بیگ کے زمانے میں ہی پیپلز پارٹی کے سابق رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی اور دیگر کو ملا کر کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی بنوائی گئی۔ ملک بھر میں اس کے جلسے ہوئے اور کراچی میں تو شاہراہ قائدین پر بہت ہی بڑا جلسہ ہوا جس میں الطاف حسین کا جادو بھی بولتا دکھائی دیا۔
بعد میں جتوئی صاحب نے تسلیم کیا کہ اسلم بیگ صدر بننا چاہتے تھے اور جتوئی صاحب کو تاثر تھا کہ وزیراعظم وہ ہوں گے۔