کھاریاں کے ’ہینو‘ کا جنازہ اور بے حس معاشرہ

کھاریاں کے ’ہینو‘ کا جنازہ اور بے حس معاشرہ
گذشتہ رات سے سوشل میڈیا پر چند تصاویر وائرل ہیں جن میں تقریباً چار افراد ایک جنازہ اٹھائے جا رہے ہیں اور ایک تصویر میں یہی 4 لوگ اس میت کو دفن کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کہانی کی تصدیق کے لئے کھاریاں میں مقیم دوستوں سے رابطہ کیا تو جو معلومات مجھے ملیں وہ اس معاشرے کے گھناؤنے چہرے پر موجود نقاب اتارنے کے لئے کافی ہیں۔

یہ جنازہ کھاریاں کے محلہ نیو آڑا کے رہائشی ''ہینو'' کا تھا۔ سوشل میڈیا پر جس کے جنازہ کی تصاویر کے ساتھ یہ تحریر لکھی ہے کہ کھاریاں میں ایک نوجوان ٹریفک حادثے میں فوت ہوا جس کے والدین پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ مرنے والے نوجوان کا تعلق اہل تشیع مکتبہ فکر سے تھا تو دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اہل محلہ نے نوجوان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔

اس غریب جنازے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سب معاشرے کی اس بے حسی کا رونا رونے لگے اور میں ان تصویروں کو دیکھ کر بس یہی سوچ رہا تھا کہ آخر کوئی معاشرہ اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن سامنے نظر آنے والی تصویریں کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی تھیں۔



کھاریاں کے اس غریب جنازے کی تفصیلات کے لیے کھاریاں میں رہنے والے دوستوں سے رابطہ کیا جس پر چوہدری عبدالباسط نے میرا رابطہ مرحوم کے ایک محلہ دار سے کروایا، جن سے فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔



اس محلہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کل رات جس نوجوان کا جنازہ 4 لوگوں اٹھائے ہوئے تھے اس کا نام تو معلوم نہیں لیکن لوگ اسے "ہینو" کے نام سے پکارتے تھے اور اس کا گھر میرے گھر سے صرف چند گھروں کے فاصلے پر ہے۔

کھاریاں کے محلہ نیو آڑا میں مقیم ہینو کا گھر کوثر مسجد کے قریب واقع تھا اور وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی تھا جسے نشہ کرنے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ مرحوم ہینو کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ سوتیلا باپ زندہ ہے اور حقیقی باپ کون ہے، یہ اہل محلہ نہیں جانتے کیونکہ اس کی والدہ کی یہ دوسری شادی تھی۔

ہینو کہ محلہ دار نے بتایا کہ اس کے دونوں چھوٹے بھائی بھی زیادہ نشہ کرنے کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے اور یہ بھی نشے کی وجہ سے مارا گیا۔ ہینو کی موت کی وجہ بتاتے ہوئے محلہ دار نے بتایا کہ اس کی موت ٹریفک حادثے میں ہوئی جس کے بعد اس کی لاش کو سرکاری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

حاصل معلومات کے مطابق اہل محلہ کو موت کی اطلاع دینے کے لئے مسجد کا رُخ کیا گیا تو امام مسجد نماز مغرب پڑھانے میں مصروف تھے۔ جب امام مسجد اور نمازی حضرات نماز پڑھ چکے تو انہیں ہینو کی حادثاتی موت کی خبر سنائی گئی اور امام مسجد سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی۔ جس پر اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے امام مسجد نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ مرنے والے کا تعلق اہل تشیع مکتبہ فکر سے ہے اور وہ اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتے، اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔

میں نے ہینو کہ محلہ دار سے پوچھا کہ کیا وہ اہل تشیع تھا تو اس کا جواب تھا کہ یہ تو نہیں پتہ لیکن وہ محرم کے ماتمی جلوسوں میں جایا کرتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ جب امام مسجد نے جنازہ پڑھانے سے انکار کیا تو باقی محلے داروں نے جنازہ کیوں نہ پڑھا؟ تو اُن کا جواب تھا کہ جب امام مسجد نے جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تو اس لیے باقی محلے دار بھی جنازہ پڑھنے نہیں گئے۔ میں نے پوچھا آپ بھی نہیں گئے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت بہت سے محلے داروں کو پتہ ہی بعد میں چلا کیونکہ مسجد میں اعلان نہیں ہوا اور جب یہ سب ہوا وہ شہر میں اپنی دکان پر تھے۔

کھاریاں کا ہینو جو سڑک پر چلتی گاڑیوں کی ونڈ سکرین صاف کر کے گزر بسر کر رہا تھا اس کا لاشہ 4 کاندھوں کا محتاج تھا۔ ایسے میں چند نوجوانوں نے ایک اہل تشیع امام سے رابطہ کیا اور جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر وہ وہاں پہنچے اور 4 نوجوانوں (جن کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں) کی مدد سے پورے کھاریاں کا فرض کفایہ ادا کیا۔



وہ ہینو جو کل تک 4 کاندھوں کا محتاج تھا آج سوشل میڈیا پر پورا پاکستان اس کی مغفرت کی دعائیں کر رہا ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے رسوا کر دے۔ میرا اللہ جسے چاہے بخش دیتا ہے، غفور و رحیم اسی کی صفت ہے۔

یہ افسوسناک واقعہ کھاریاں میں پیش آیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ معاشرہ تو بے حس ہے۔ ہینو کے محلے داروں نے ظلم کیا ہے۔ لیکن، شاید ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جب زندگی میں کہیں ایسا موقع آئے تو یقناً وہ بھی ہینو کے محلے داروں جیسا فیصلہ ہی کریں۔

بس درخواست یہی ہے کہ اگر آپ کو احساس ہو گیا ہے کہ جو ہوا ہے، غلط ہوا ہے تو اس کی مذمت کریں اور دل سے عہد کریں کہ جہاں آپ کو ایسی کسی صورتحال کو سامنا ہو گا تو آپ ہینو کہ محلے داروں جیسا فیصلہ نہیں کریں گے۔

جزا و سزا کا اختیار اللہ کا ہے، اللہ کے پاس ہی رہنے دیں کسی مولوی کو یہ اختیار نہ دیں۔ صرف میرا اللہ ہی دلوں کے راز بہتر جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کون کتنا مقرب ہے۔ دیکھ لو کہ جس کا جنازہ پڑھنے کوئی نہیں گیا اس کی بخشش کی دعا پورا پاکستان کر رہا ہے۔

اللہ عزوجل مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ امین

لکھاری نے جامعہ گجرات سے میڈیا سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔